وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَىٰ بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ
اور آپ کا رب بستیوں کو ناحق ہلاک (٩٥) نہیں کرتا اگر ان میں رہنے والے نیک اور اصلاح پسند ہوتے۔
وَ مَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ ....: یعنی اگر وہ لوگ مجرم ہونے کے بجائے مصلح ہوتے، پھر انھیں عذاب کے ساتھ ہلاک کیا جاتا تو یہ صاف ظلم تھا اور اللہ تعالیٰ کبھی ایسا ظلم نہیں کرتا کہ کسی بستی والے لوگ فساد نہ کریں بلکہ اصلاح کریں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرتے ہوں اور پھر بھی اللہ تعالیٰ ان پر عذاب بھیج دے، کیونکہ یہ ظلم ہو گا اور اللہ تعالیٰ کسی صورت بھی ظلم کرنے والا نہیں۔ بعض اہل علم نے ظلم سے مراد شرک لے کر یہ معنی کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی بستی کو صرف شرک کی وجہ سے ہلاک نہیں کرتا، جب کہ اس کے رہنے والے زمین میں فساد نہ کرتے ہوں، بلکہ آپس کے تعلقات میں اصلاح رکھتے ہوں۔ ہلاک اسی وقت کرتا ہے جب وہ حد سے بڑھ کر زمین میں فساد پھیلانے لگیں، مگر پہلا معنی زیادہ درست ہے۔