وَإِنَّ كُلًّا لَّمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ رَبُّكَ أَعْمَالَهُمْ ۚ إِنَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اور بیشک آپ کا رب ہر ایک کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ (٩٠) وہ بیشک ان کے اعمال کی پوری خبر رکھتا ہے۔
1۔ وَ اِنَّ كُلًّا لَّمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ ....: ’’ كُلًّا ‘‘ میں تنوین عوض کی ہے، یعنی اس کا مضاف الیہ محذوف ہے۔ اصل میں تھا ’’ كُلُّهُمْ‘‘ یا ’’كُلُّ هٰؤُلَاءِ‘‘ (یہ سب لوگ) ’’ لَمَّا ‘‘ کا معنی ’’جب‘‘ ہے، یہ حرفِ شرط ہے جس کی شرط محذوف ہے۔ ’’لَيُوَفِّيَنَّهُمْ ‘‘ اس کی جزا ہے۔ وہ محذوف شرط ’’لَمَّا ‘‘ کے معنی کے مطابق نکالی جائے گی، یعنی ’’لَمَّا جَاءَ أَجَلُهُمْ‘‘ یعنی بے شک یہ سب لوگ (جب ان کا وقت آئے گا) تو یقیناً انھیں ان کا رب ان کے اعمال کا ضرور پورا پورا بدلہ دے گا۔ چونکہ وہ لوگ قیامت کے منکر تھے، اس لیے اس جملے میں کئی طرح سے تاکید آئی ہے۔ ’’اِنَّ ‘‘ ، لام تاکید اور نون ثقیلہ۔ ’’ لَمَّا ‘‘ کا مابعد حذف کرنے سے بھی ایک ہیبت پیدا ہو رہی ہے، کیونکہ خود لفظ ’’لَمَّا ‘‘ میں وقت کا مفہوم شامل ہے، یعنی جب وہ وقت آئے گا۔( ’’ اِنَّ كُلًّا لَّمَّا ‘‘ کی یہ سب سے واضح اور آسان توجیہ ہے) دیکھیے تفسیر الشعراوی۔ تفسیر نسفی میں ہے : ’’ قَالَ صَاحِبُ الْإِيْجَازِ ’’لَمَّا‘‘ فِيْهِ مَعْنَي الظَّرْفِ وَقَدْ دَخَلَ فِي الْكَلاَمِ اخْتِصَارٌ كَأَنَّهُ قِيْلَ ’’وَإِنَّ كُلاًّ لَّمَّا بُعِثُوْا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ رَبُّكَ‘‘ مطلب وہی ہے جو اوپر گزرا، البتہ انھوں نے ’’لَمَّا جَاءَ أَجَلُهُمْ ‘‘ کے بجائے ’’لَمَّا بُعِثُوْا ‘‘ محذوف نکالا ہے۔ 2۔ اِنَّهٗ بِمَا يَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ: اس میں اعمال کی جزا پوری پوری دینے کی وجہ بیان کی ہے کہ وہ ان کے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے، اس لیے عمل نیک ہو یا بد اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔