يَقْدُمُ قَوْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَوْرَدَهُمُ النَّارَ ۖ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُودُ
وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے چلے گا (٨١) اور انہیں جہنم رسید کردے گا، اور وہ بہت ہی بری جگہ ہوگی، جہاں وہ لوگ پہنچا دیئے جائیں گے۔
1۔ يَقْدُمُ قَوْمَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ....: ’’ قَدِمَ يَقْدَمُ (ع) آنا اور’’ قَدَمَ يَقْدُمُ ‘‘(ن)آگے ہونا۔’’ فَاَوْرَدَهُمُ ‘‘ ’’وِرْدٌ‘‘ (واؤ کے کسرہ کے ساتھ) وہ پانی جسے پینے کے لیے لوگ اور جانور آتے ہوں، یعنی گھاٹ۔ ’’ اَوْرَدَ ‘‘ باب افعال سے ماضی معلوم ہے، یعنی جس طرح دنیا میں وہ اپنے لوگوں کا پیشوا تھا، اسی طرح آخرت میں بھی ان کا پیشوا ہو گا اور پینے کے لیے انھیں لے کر پانی کے گھاٹ پر جانے کے بجائے خود آگے ہو کر سب کو آگ میں لے جائے گا۔ یہی حال ان تمام لوگوں کا ہو گا جو کسی قوم کی رہنمائی کفر اور معصیت کی طرف کرتے ہیں کہ وہ انھی کی قیادت میں چل کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ ’’ يَقْدُمُ ‘‘ مضارع ہے، آگے ہو گا، اس کے بعد مضارع ’’يُوْرِدُهُمْ ‘‘ (انھیں آگ پرلے آئے گا) کے بجائے ’’ فَاَوْرَدَهُمُ النَّارَ ‘‘ (وہ انھیں آگ پر لے گیا) ماضی کا لفظ یقین کے لیے استعمال فرمایا۔ 2۔ وَ بِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ: پینے کی جگہ تو لوگ پیاس بجھانے کے لیے جاتے ہیں، مگر وہاں پانی کے بجائے آگ سے ان کی مہمان داری کی جائے گی۔ (والعیاذ باللہ)