قَالَ يَا قَوْمِ أَرَهْطِي أَعَزُّ عَلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَاتَّخَذْتُمُوهُ وَرَاءَكُمْ ظِهْرِيًّا ۖ إِنَّ رَبِّي بِمَا تَعْمَلُونَ مُحِيطٌ
شعیب نے کہا، اے میری قوم کے لوگو ! کیا میرا خاندان تمہاری نظر میں اللہ سے زیادہ عزیز ہے (٧٧)، اور تم نے اسے پس پشت ڈال دیا؟ بیشک میرا رب تمہارے تمام کاموں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
1۔ قَالَ يٰقَوْمِ اَرَهْطِيْۤ اَعَزُّ عَلَيْكُمْ ....: ’’ظِهْرِيًّا ‘‘ ’’ ظَهْرٌ ‘‘ کی طرف منسوب ہے، نسبت کی وجہ سے ظاء پر کسرہ آگیا ہے۔ یہاں سے شعیب علیہ السلام کا لہجہ کچھ سختی میں بدل جاتا ہے، فرماتے ہیں، کیا میری برادری تمھارے نزدیک اللہ سے بھی زیادہ معزز اور قوی ہے، جس نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے؟ اس ہر شے کے مالک کو تو تم نے ایسے سمجھ رکھا ہے جیسے کوئی بے وقعت چیز پیٹھ پیچھے پھینک دی گئی ہوتی ہے۔ مقصد یہ کہ اللہ کے بھیجے ہوئے کی پروا نہ کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کی بے وقعتی اور بے قدری کرنا ہے۔ 2۔ اِنَّ رَبِّيْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ مُحِيْطٌ : وہ تمھارے تمام اعمال (جن میں ان کے اقوال، ارادے، سازشیں اور وہ سب کچھ شامل ہے جو وہ شعیب علیہ السلام کے خلاف کر رہے تھے) سے پوری طرح واقف ہے، کوئی چیز اس کے احاطے سے باہر نہیں۔