وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَقَالَ هَٰذَا يَوْمٌ عَصِيبٌ
اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس پہنچے، تو وہ پریشان اور بے قرار (٦٣) ہوگئے اور کہا کہ یہ تو بڑا مشکل دن ہے۔
1۔ وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِيْٓءَ بِهِمْ ....: یہاں سے لوط علیہ السلام کا قصہ شروع ہوتا ہے جو کئی سورتوں میں مختلف انداز سے ذکر ہوا ہے، مثلاً سورۂ اعراف، حجر، شعراء، نمل، عنکبوت، صافات، ذاریات اور قمر۔ ان سورتوں میں بھی تفسیر دیکھ لیں۔ لوط علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام کے آگ سے صحیح سلامت باہر نکل آنے پر ان پر ایمان لے آئے تھے اور انھوں نے ان کے ساتھ ہی شام کی طرف ہجرت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں نبوت سے سرفراز فرمایا اور وادئ اردن میں ’’سدوم‘‘ نامی بستی اور اس کے گرد و نواح کے لیے مبعوث فرمایا۔ یہ قوم شرک و کفر کے ساتھ ساتھ ایسے فعل بد کی مرتکب تھی جس کا ارتکاب ان سے پہلے دنیا بھر میں کسی نے نہیں کیا تھا۔ یہ لوگ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے ساتھ بدفعلی کے عادی تھے۔ اپنی مجلسوں میں کھلم کھلا برائی کرنا اور ڈاکے مارنا ان کا عام رویہ تھا۔ دیکھیے سورۂ عنکبوت (۲۹) مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۸۰ تا ۸۳)کی تفسیر۔ 2۔ سِيْٓءَ بِهِمْ ....: ’’سَائَهُ يَسُوْئُهُ ‘‘ سے ماضی مجہول ہے، غمگین کرنا، برا لگنا۔ یہاں ’’سِيْٓءَ ‘‘ کا نائب فاعل لوط علیہ السلام کی طرف لوٹنے والی ضمیر ہے اور فاعل محذوف ہے، گویا عبارت یوں ہے کہ’’سَاءَهُ مَجِيْئُهُمْ‘‘ یعنی ان کے آنے نے اسے مغموم کر دیا۔ فعل مجہول کا معنی ہو گا، وہ ان کی وجہ سے مغموم ہوا۔ ’’ وَ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا ‘‘ ’’ذَرْعٌ‘‘ اور ’’ذِرَاعٌ‘‘ بازو یا جانور کی اگلی ٹانگوں کو کہتے ہیں، اونٹ یا کسی بھی جان دار پر اگر بوجھ نہ ہو تو وہ کھلا قدم اٹھاتا ہے اور اگر اس کی استعداد سے زیادہ بوجھ ہو تو وہ بڑی مشکل سے قدم اٹھاتا ہے اور وہ بھی بالکل تنگ سا، اس لیے ’’ضَاقَ ذَرْعًا‘‘ سے مراد دل تنگ ہونا لیا جاتا ہے۔ لوط علیہ السلام کے ان کے آنے کی وجہ سے مغموم ہونے کی وجہ مہمان نوازی میں بخل نہ تھا، نبی سے بڑھ کر کون فراخ دل اور سخی ہو سکتا ہے، بلکہ انھیں اپنی قوم کی عادتِ بد کا علم تھا۔ ظاہر ہے فرشتے انسانی شکل میں آئے ہوں تو وہ کس قدر خوبصورت ہوں گے۔ لوط علیہ السلام کو معلوم نہ تھا کہ یہ فرشتے ہیں، کیونکہ غیب تو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور لوط علیہ السلام کو یہ بات بتائی نہیں گئی تھی، اس لیے ان کے دل پر جو گزری، اللہ تعالیٰ نے اس کا کمال نقشہ کھینچا ہے۔ پہلے غم ہوا، پھر اپنی بے بسی پر تنگ دل ہوئے، پھر جس طرح کوئی شخص کوئی لفظ کہہ کر دل کو کچھ نہ کچھ تسلی دیتا ہے، یہ کہا کہ یہ دن تو بہت سخت ہے۔ [ التحریر والتنویر]