وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَىٰ قَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ ۖ فَمَا لَبِثَ أَن جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ
اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری (٥٦) لے کر آئے انہوں نے کہا، سلام علیکم ابراہیم نے کہا سلام علیکم پھر جلد ہی ایک بھنا ہوا بچھڑا لے کر آئے۔
1۔ وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَا اِبْرٰهِيْمَ بِالْبُشْرٰى : ’’رُسُلُنَا‘‘ ہمارے بھیجے ہوئے سے مراد فرشتے ہیں جو انسانی شکل میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس بیٹے اور پوتے، اسحاق اور یعقوب کی خوش خبری لے کر آئے تھے۔ ان کی تعداد بعض نے تین بیان کی، جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل، بعض نے نو (۹) اور بعض نے تیرہ (۱۳)، مگر قرآن و سنت سے ان کی تعداد کا ذکر ہمیں نہیں ملا۔ سورۂ حجر (۴۹، ۵۰) میں اللہ تعالیٰ نے اپنے غفور و رحیم ہونے اور اپنے عذاب کے عذاب الیم ہونے کی خبر دینے کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد ابراہیم اور لوط علیھما السلام کے یہ واقعات ذکر فرمائے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرشتوں کی ایک ہی جماعت ایک کے لیے خوش خبری اور دوسری قوم کے لیے عذاب لے کر آئی تھی۔ چنانچہ ان کے آنے سے اللہ تعالیٰ کی دونوں صفات کا اظہار ہوا تھا۔ یہاں ان فرشتوں کے آنے کو ابراہیم علیہ السلام کے لیے خوش خبری لانے والے فرمایا ہے، کیونکہ اگر ابراہیم علیہ السلام کے لیے بیٹے اور پوتے کی خبر خوش خبری ہے تو لوط علیہ السلام کی ملعون قوم کی بربادی کی خبر بھی ابراہیم اور لوط علیھما السلام دونوں کے لیے خوش خبری ہے، البتہ قوم لوط کے لیے بری خبر ہے۔ 2۔ قَالُوْا سَلٰمًا قَالَ سَلٰمٌ : پہلا ’’ سَلٰمًا ‘‘ منصوب ہے،یہ جملہ فعلیہ ہے : ’’نُسَلِّمُ سَلاَمًا ‘‘ ’’ہم سلام کہتے ہیں۔‘‘ دوسرا ’’سَلٰمٌ‘‘مرفوع ہے، یعنی ’’سَلَامٌ عَلَيْكُمْ‘‘ ’’تم پر سلام ہو۔‘‘ معلوم ہوا کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کیا جس میں کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے سلام کہنے کا حکم ہے۔ دیکھیے سورۂ نور (۲۷) بلکہ ابن عمر رضی اللہ عنھما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے : (( اَلسَّلَامُ قَبْلَ السُّؤَالِ فَمَنْ بَدَأَكُمْ بِالسُّؤَالِ قَبْلَ السَّلَامِ فَلَا تُجِيْبُوْهٗ ))[ السلسلۃ الصحیحۃ :1؍458، ح : ۸۱۶ ] ’’سلام سوال سے پہلے ہے، جو تم سے سلام سے پہلے سوال کرے، اسے جواب مت دو۔‘‘ اور ایک روایت میں فرمایا : (( مَنْ بَدَأَ بِالْكَلَامِ قَبْلَ السَّلَامِ فَلَا تُجِيْبُوْهٗ )) [ صحیح الجامع : ۶۱۲۲ ] ’’جو سلام سے پہلے بات کرے اسے جواب مت دو۔‘‘ ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے بہتر جواب دیا جو سورۂ نساء (۸۶) میں ہے، کیونکہ جملہ فعلیہ کچھ وقت کے لیے ہوتا ہے جب کہ جملہ اسمیہ میں استمرار یعنی ہمیشگی پائی جاتی ہے، یعنی تم پر ہمیشہ سلامتی ہو۔ ’’سَلٰمًا ‘‘ کے جواب میں ’’سَلٰمٌ ‘‘ بہتر جواب ہے۔ 3۔ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ: اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ فرشتے انسانی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ حدیث میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ معروف حدیث جبریل علیہ السلام میں فرشتے کا ایک اعرابی کی شکل میں آنا بخاری و مسلم میں موجود ہے۔ [بخاری: ۴۷۷۷۔ مسلم: ۸] دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ابراہیم علیہ السلام اولو العزم پیغمبر ہو کر بھی مہمانوں کو پہچان نہ سکے، ورنہ وہ کھانے کا اہتمام نہ کرتے، کیونکہ فرشتے نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ علم غیب صرف اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ جب ابراہیم علیہ السلام علم غیب نہیں رکھتے تھے تو پھر ان لوگوں کی کیا اوقات ہے جو نہ نبی ہیں اور نہ ان کے اصلی حالات اللہ کے سوا کوئی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی کیا حیثیت ہے؟ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ابراہیم علیہ السلام بے حد مہمان نواز تھے۔ یہ وصف ہر نبی خصوصاً ابراہیم علیہ السلام اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں بہت پایا جاتا تھا۔ ہماری ماں خدیجہ رضی اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی وحی کے موقع پر آپ کے اوصاف میں اس وصف کا خصوصی ذکر فرمایا : (( وَتَقْرِي الضَّيْفَ )) [ بخاری : ۳ ] ’’آپ مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کا یہ حال تھا کہ نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : (( كَانَ ابْنُ عُمْرَ لَا يَأْكُلُ حَتَّی يُؤْتٰی بِمِسْكِيْنٍ يَأْكُلُ مَعَهٗ ))’’عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک کوئی مسکین ان کے ساتھ کھانے کے لیے نہ لایا جاتا۔‘‘ [بخاری، الأطعمۃ، باب المؤمن یأکل في معی واحد : ۵۳۹۳ ] پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے والد ماجد ابراہیم علیہ السلام کی فیاضی کا کیا حال ہو گا۔ چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ مہمان نوازی میں دیر نہیں کرنی چاہیے، نہ ان سے اس بارے میں پوچھ گچھ کرنی چاہیے۔ سورۂ ذاریات میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام چپکے سے گھر گئے اور کھانا لے آئے۔ وقت کی مناسبت سے جو حاضر ہو پیش کر دیا جائے، مہمان کی خواہش ہے تو کھا لے، ورنہ اس کی مرضی۔ پانچویں یہ کہ ابراہیم علیہ السلام پر دنیوی لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کا فضل تھا، ورنہ بھنا ہوا بچھڑا تھوڑی دیر میں لا کر پیش کر دینا ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ چھٹی یہ کہ وہ احادیث جن میں گائے کے گوشت کو بیماری کہا گیا ہے، بظاہر اچھی سند کی بھی ہوں تو شاذ ہیں، کیونکہ قرآن میں گائے کے گوشت کو بطور انعام ذکر کیا گیا ہے۔ اس کی قربانی اور مختلف موقعوں پر ذبح کرنا قرآن مجید اور صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ یا اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیماری والی چیز کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں؟ ساتویں یہ کہ ابراہیم علیہ السلام ، ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء بشر تھے اور کھانا کھاتے تھے۔ وہ نہ اللہ تعالیٰ یا اس کا کوئی جزو تھے اور نہ فرشتے، بلکہ وہ انسان تھے، کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے۔ (دیکھیے فرقان : ۲۰) اور ان کی بیویاں تھیں اور اولادیں بھی۔ (دیکھیے رعد : ۳۸) جب کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے ان سب سے پاک ہیں۔ آٹھویں یہ کہ صوفیاء جو جان دار یا اس سے نکلنے والی چیزیں اپنے خود ساختہ وظیفوں اور چلّوں کے دوران میں یا ہمیشہ کے لیے کھانا ترک کر دیتے ہیں وہ ملت ابراہیمی کے نہیں بلکہ ہندو مذہب کے پیروکار ہیں۔