قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَآتَانِي مِنْهُ رَحْمَةً فَمَن يَنصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِنْ عَصَيْتُهُ ۖ فَمَا تَزِيدُونَنِي غَيْرَ تَخْسِيرٍ
صالح نے کہا، اے میری قوم کے لوگو ! اگر میں اپنے رب کی جانب سے ایک صاف اور روشن راہ (٥٠) پر قائم ہوں اور اس نے مجھے اپنی جناب خاص سے نبوت جیسی رحمت عطا کی ہے، تو اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو اس کی گرفت سے بچنے کے لیے میری کون مدد کرے گا، تم لوگ سوائے خسارہ کے مجھے کچھ بھی نہیں دو گے۔
1۔ قَالَ يٰقَوْمِ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كُنْتُ ....: اس کی تفسیر ان آیات سے پہلے ہود علیہ السلام کے قصے میں دیکھیے۔ ’’مِنْهُ رَحْمَةً ‘‘ سے مراد نبوت ہے۔ 2۔ اِنْ عَصَيْتُهٗ: یعنی اگر میں تم تک اس کا پیغام پہنچانے میں کوتاہی کروں تو اس کی گرفت سے مجھے کون چھڑائے گا؟ 3۔ غَيْرَ تَخْسِيْرٍ: یعنی اگر میں توحید کی راہ چھوڑ کر شرک کی راہ اختیار کر لوں تو یہی نہیں کہ تم مجھے اللہ کی پکڑ سے نہ بچا سکو گے، بلکہ تمھاری وجہ سے میرا جرم اور بھی بڑھ جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس بات پر مجھے دوہری سزا دے گا کہ میں نے تمھارے کہنے پر جان بوجھ کر شرک کا راستہ اختیار کیا۔ ’’خَسِرَ يَخْسَرُ خُسْرَانًا ‘‘ (ع) خسارہ اٹھانا اور ’’خَسَّرَ يُخَسِّرُ تَخْسِيْرًا ‘‘ (تفعیل) خسارہ پہنچانا۔