سورة ھود - آیت 54

إِن نَّقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ ۗ قَالَ إِنِّي أُشْهِدُ اللَّهَ وَاشْهَدُوا أَنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ہم تو بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے بعض معبودوں نے تمہیں کسی بیماری (٤٢) میں مبتلا کردیا ہے، ہود نے کہا، میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں، اور تم لوگ بھی گواہ رہو کہ میں تمہارے شرکاء سے قطعا بری ہوں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰىكَ بَعْضُ اٰلِهَتِنَا بِسُوْٓءٍ: یہ چوتھی بات ہے جو انھوں نے ہود علیہ السلام کو جھٹلانے کے ساتھ مزید توہین اور مذاق کے لیے کہی۔ ’’عَرَا يَعْرُوْ ‘‘ اور ’’اِعْتَرٰي يَعْتَرِيْ‘‘ پیش آنا، پہنچنا، باء کے ساتھ متعدی ہو کر پہنچانا کے معنی میں ہو گیا، یعنی ہمارے کسی ایک آدھ معبود نے تجھے کوئی آفت پہنچا دی ہے، جو ایسی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے، اگر سب کی مار پڑ جاتی تو معلوم نہیں تیرا کیا بنتا۔ افسوس! یہی کسی بزرگ کی مار کا تصور آج مسلمانوں میں بھی آگیا ہے، حالانکہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ اللہ کے سوا کوئی زندہ یا مردہ ہستی کسی کا کچھ نہ بگاڑ سکتی ہے نہ بنا سکتی ہے۔ قَالَ اِنِّيْ اُشْهِدُ اللّٰهَ ....: یعنی میرا تمھارے ان بتوں سے اور اللہ کے سوا کسی معبود سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ میں ہر آن ان کا انکار اور ان سے اظہار براء ت کرتا ہوں۔ فَكِيْدُوْنِيْ جَمِيْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ : یعنی یہ جو تم کہتے ہو کہ تم پر ہمارے کسی معبود کی مار پڑ گئی ہے تو ایک آدھ کے بجائے اگر تم اور تمھارے یہ سب معبود مل کر بھی میرا کچھ بگاڑ سکتے ہیں تو بگاڑ لیں اور مجھے ذرا مہلت نہ دیں، ورنہ جان لو کہ تم بھی جھوٹے اور تمھارے یہ معبود بھی غلط۔ ہود علیہ السلام کا یہ کلام ان کی قوم کی دوسری فضول باتوں کے علاوہ اس بات کا بھی جواب ہے کہ تو ہمارے پاس کوئی واضح دلیل، یعنی معجزہ نہیں لایا۔ معجزہ اور نشانی کیا چیز ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہر معجزہ کی روح وہ چیلنج ہوتا ہے جو صاحب معجزہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ مثلاً صالح علیہ السلام کی اونٹنی، ابراہیم علیہ السلام کا معجزہ ان کے لیے آگ کا گلزار بن جانا، مگر یہ معجزہ بھی کیا کم ہے کہ اکیلا شخص پوری قوم کو للکار رہا ہے کہ میں تم سب کو اور تمھارے خداؤں کو کچھ نہیں سمجھتا۔ تم سب مل کر میرا جو بگاڑ سکتے ہو بگاڑ لو اور اس قوم کو للکار رہا ہے جو نہایت سخت گیر اور رحم سے نا آشنا تھے، جن کے بارے میں آتا ہے : ﴿وَ اِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ ﴾ [ الشعراء:۱۳۰] ’’اور جب تم پکڑتے ہو تو بہت بے رحم ہو کر پکڑتے ہو۔‘‘ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اتنی قوت والے تھے کہ ان کے بعد ویسی قوم پیدا ہی نہیں کی گئی، فرمایا : ﴿ الَّتِيْ لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ ﴾ [ الفجر : ۸] ’’وہ کہ ان جیسا کوئی شہروں میں پیدا نہیں کیا گیا۔‘‘ جب طوفان سے ہلاک ہوئے تو : ﴿ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ ﴾ [ الحاقۃ : ۷ ] ’’گویا وہ گری ہوئی کھجوروں کے تنے تھے۔‘‘ صرف ایک شخص پوری قوم کو للکار رہا ہے، جو اس کے خون کی پیاسی ہے، جس کے معبودوں کو اور پوری قوم کو اس نے جاہل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ سب مل کر میرے خلاف جو کچھ کرسکتے ہو کر لو اور پوری قوم باتیں تو بناتی ہے، مگر اس کا کچھ بگاڑ نہ سکی، یہ کھلا معجزہ نہیں تو کیا ہے؟