قَالُوا يَا هُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ وَمَا نَحْنُ بِتَارِكِي آلِهَتِنَا عَن قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ
انہوں نے کہا، اے ہود ! تم نے ہمارے سامنے کوئی کھلی نشانی (٤١) نہیں پیش کی ہے، اور ہم اپنے معبودوں کو صرف تمہاری بات میں آکر نہیں چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہم تم پر ایمان لانے والے ہیں
1۔ قَالُوْا يٰهُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ ....: یہ بات یقینی ہے کہ ہر پیغمبر اللہ کی طرف سے ایسے واضح دلائل اور یقینی آیات اور نشانیاں لے کر آتا ہے کہ سننے اور دیکھنے والوں کو اس کے نبی ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا، مگر یہ سب کچھ انھی کے لیے کار آمد ہوتا ہے جو دل کے کانوں اور آنکھوں سے سنتے اور دیکھتے ہیں۔ لیکن جب کوئی شخص یا قوم ضد اور عناد کی وجہ سے یہ طے کر لے کہ ہم نے ماننا ہی نہیں تو انھیں لاکھ دلیل سامنے ہونے کے باوجود ایک بھی نظر نہیں آتی اور ان کی حالت وہ ہو جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ (۶، ۷) میں بیان فرمائی ہے ۔ 2۔ یہاں چار جملوں میں ہود علیہ السلام کی قوم نے سخت ترین لفظوں میں انھیں جھٹلا کر ان پر ایمان لانے سے صاف انکار کر دیا۔ پہلے جملے میں ان پر نبوت کی ایک بھی دلیل پیش نہ کرنے کا بہتان لگایا۔ دوسرے اور تیسرے جملے میں ’’ مَا ‘‘ نافیہ کی تاکید باء کے ساتھ کرکے کچھ بھی ہو جائے اپنے معبودوں کو چھوڑنے اور ہود علیہ السلام پر ایمان لانے سے انکار کر دیا۔