سورة ھود - آیت 46

قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اللہ نے کہا، اے نوح ! وہ آپ کے گھر والوں (٣٤) میں سے نہیں ہے، وہ تو مجسم عمل غیر صالح ہے، پس آپ ایسا سوال نہ کیجیے جس کا آپ کو کوئی علم نہ ہو، میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ نادانوں میں سے نہ ہوجایے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالَ يٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ: فرمایا اے نوح! یہ تیرے اہل میں سے نہیں،بلکہ ’’ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ ‘‘ کے تحت کفر کی وجہ سے تمھارا اہل ہونے کے شرف سے محروم ہے اور ان لوگوں میں شامل ہو گیا ہے جن کے غرق کیے جانے کا پہلے فیصلہ ہو چکا ہے۔ اِنَّهٗ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ : عام طور پر اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے ’’اس کے عمل اچھے نہیں ہیں۔‘‘ یہ معنی اس صورت میں درست ہو سکتا ہے کہ ’’عَمَلٌ ‘‘ مصدر کو مبالغہ کے لیے اسم فاعل ( عَامِلٌ ) کے معنی میں مانا جائے، جیسے : ’’ زَيْدٌ عَدْلٌ ‘‘ کو ’’زَيْدٌ عَادِلٌ ‘‘ کے معنی میں لیا جاتا ہے، یعنی یہ غیر صالح عمل کرنے والا ہے۔ مگر امام المفسرین طبری رحمہ اللہ کے مطابق ’’اِنَّهٗ ‘‘ کی ضمیر نوح علیہ السلام کی دعا کی طر ف جاتی ہے کہ آپ نے اپنے مشرک بیٹے کے حق میں جو سفارش کی ہے، یہ کام اچھا نہیں ہے۔ فَلَا تَسْـَٔلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ : یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ سوال تو اسی چیز کا ہوتا ہے جس کا علم نہ ہو، جس چیز کا علم ہو اس کے سوال کی تو ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ اس کے دو جواب ہیں، دراصل عربی میں سوال کا لفظ مانگنے کے معنی میں بھی آتا ہے اور پوچھنے کے بارے میں بھی۔ سو پہلا جو اب یہ ہے کہ صرف وہی چیز مانگنی چاہیے جس کے متعلق اچھی طرح معلوم ہو کہ جس سے مانگ رہے ہیں وہ یہ چیز مانگنے پر ناراض نہیں ہو گا۔ جس کے متعلق یہ علم نہ ہو بلکہ اس کے ناراض ہونے کا بھی خطرہ ہو، وہ ہرگز نہیں مانگنی چاہیے۔ اب نوح علیہ السلام کے سامنے اللہ تعالیٰ کے وہ فرمان موجود تھے : ﴿ وَ لَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ﴾ اور ﴿ وَ اَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ ﴾ پھر بھی انھیں اس کا علم نہیں ہو سکا کہ اس درخواست پر اللہ تعالیٰ کس قدر ناراض ہوں گے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی درخواست کا جواب تو ’’ اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ‘‘ کہہ کر دے دیا تھا، اب اس سے آگے امکان تھا کہ نوح علیہ السلام بیٹے کے نجات نہ پانے اور کفر پر مستحکم رہنے کے متعلق سوال کرتے کہ اس میں کیا حکمت ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی اس سے روک دیا کہ میری حکمتوں تک تمھارے علم کی رسائی نہیں ہو سکتی، اس لیے مجھ سے ایسی بات مت پوچھنا۔ (الوسیط للطنطاوی) یعنی پوچھنی بھی وہی بات چاہیے جس کے متعلق علم ہو کہ جس سے پوچھ رہے ہیں وہ اس سوال پر ناراض نہیں ہو گا۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’آدمی پوچھتا وہی ہے جو معلوم نہ ہو، لیکن مرضی معلوم ہونی چاہیے۔ یہ کام ہے جاہل کا کہ اگلے کی مرضی نہ دیکھے پوچھنے کی، پھر پوچھے۔‘‘ (موضح) اِنِّيْ اَعِظُكَ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ: مطلب یہ ہے کہ اس حقیقت کو جاننے کے بعد اگر ایسا سوال کرو گے تو جاہل بن کر رہ جاؤ گے۔ (روح المعانی)