سورة ھود - آیت 40

حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور تنور ابل پڑا، تو ہم نے کہا کہ آپ کشتی میں ہر جانور کا ایک ایک جوڑا (نر اور مادہ) ڈال لیجیے (٢٨) اور اپنے گھر والوں کو، سوائے ان کے جن کے ڈبو دیئے جانے کا فیصلہ ہوچکا ہے، اور مومنو کو سوار کرلیجیے، اور بہت تھوڑے لوگ ان پر ایمان لائے تھے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوْرُ: ’’فَارَ يَفُوْرُ فَوْرًا ‘‘ جوش مار کر نکلنا۔ فوارہ بھی اسی سے ہے۔ ’’التَّنُّوْرُ‘‘ (بروزن فَعُّوْلٌ ) کا معروف معنی تنور ہے، جس میں روٹیاں پکائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کے گھر میں طوفان کا نشان بتا رکھا تھا کہ جب اس تنور سے پانی ابلے تب کشی میں سوار ہو جاؤ۔ (موضح) اکثر مفسرین نے تنور سے یہی عام تنور مراد لیا ہے، لیکن حسب تفسیر ابن عباس (ابن جریر) ’’التَّنُّوْرُ ‘‘سے مراد روئے زمین ہے۔ قاموس میں بھی لکھا ہے : ’’وَجْهُ الْأَرْضِ وَ كُلُّ مَفْجَرِ مَاءٍ وَ مَحْفَلُ مَاءِ الْوَادِيْ ‘‘ ’’روئے زمین، پانی پھوٹنے کی جگہ اور وادی کے پانی کے جمع ہونے کی جگہ۔‘‘ اس تفسیر کی رو سے مراد یہ ہے کہ ساری زمین پانی کا چشمہ بن گئی اور پانی ابلنے لگا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے : ﴿ وَ فَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُيُوْنًا ﴾ [القمر : ۱۲ ] ’’اور ہم نے زمین کو چشموں سے پھاڑ دیا۔‘‘ حتیٰ کہ تنور جو آگ کی جگہ ہوتے ہیں، پانی کے فوارے بن گئے۔ ویسے پہلا معنی زیادہ قرین قیاس ہے، کیونکہ علامت ظاہر ہونے کے ساتھ ہی کشتی میں سوار ہونے اور ہر جانور کا جوڑا رکھنے کا زیادہ موقع ہے، لیکن جب ساری زمین سے چشمے پھوٹ نکلیں تو یہ کام مشکل ہے اور تنور روٹیاں پکانے کے لیے عام معروف بھی ہے۔ امام طبری اور رازی نے بھی اسی معنی کو ترجیح دی ہے، کیونکہ معروف معنی چھوڑنے کی کوئی دلیل نہیں۔ ام ہشام بنت حارثہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : (( كَانَ تَنُّوْرُنَا وَ تَنُّوْرُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاحِدًا )) [ مسلم، الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ : ۸۷۳ ] ’’ہمارا تنور اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تنور ایک ہی تھا۔‘‘ ’’اَمْرُنَا ‘‘ سے مراد عذاب کا حکم ہے کہ آسمان سے موسلا دھار پانی برسنے لگا اور زمین سے چشموں کی طرح پانی ابلنا شروع ہو گیا، دونوں طبقے مل گئے اور زمین پانی میں غرق ہو گئی۔ دیکھیے سورۂ قمر (۱۱، ۱۲)۔ قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ....: ’’مِنْ كُلٍّ ‘‘ میں ’’كُلٍّ ‘‘ کی تنوین مضاف الیہ محذوف کا عوض ہے : ’’ اَيْ مِنْ كُلِّ نَوْعٍ تَحْتَاجُ اِلَيْهِ ‘‘ جب عذاب کے آثار شروع ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جانوروں کی ہر قسم میں سے ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کر لو، جن کی نسل باقی رہنا مقدر تھی۔ ’’وَ اَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَ مَنْ اٰمَنَ ‘‘ یعنی اپنی بیوی جس کا ذکر سورۂ تحریم میں ہے اور اس بیٹے جس کا ذکر زیرِ تفسیر آیات میں آ رہا ہے (جن کے کفر کی وجہ سے ان کا ڈوبنا پہلے طے ہو چکا ہے) ان کے سوا اپنے تمام گھر والوں کو اور ان لوگوں کو جو آپ پر ایمان لائے ہیں، کشتی میں سوار کر لو۔ وَ مَا اٰمَنَ مَعَهٗۤ اِلَّا قَلِيْلٌ: یہ وہی تھے جن کو قوم نے اپنے اراذل کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان پر بہت تھوڑے لوگ ہی ایمان لائے۔ ان کی تعداد بہت سے مفسرین (۷۹) یا (۸۰) بیان کرتے ہیں، مثلاً آلوسی وغیرہ، جن میں وہ نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں سام، حام اور یافث کا نام لیتے ہیں، کافر بیٹے کا نام کنعان تھا۔ ان چاروں کی بیویاں مسلمان تھیں اور ۷۲ مرد اور عورتیں دوسرے مسلمان تھے۔ بعض نے یہ تعداد چالیس(۴۰) بتائی ہے۔ ہمارے شیخ محمد عبدہ الفلاح رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’قرآن وحدیث میں ان کی تعداد کا کوئی ذکر نہیں۔‘‘ اور ظاہر ہے کہ ان دونوں چیزوں کے علاوہ کوئی معتبر ذریعہ معلوم کرنے کا ہمارے پاس نہیں ہے۔ [ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِعَدَدِھِمْ ]