وَأُوحِيَ إِلَىٰ نُوحٍ أَنَّهُ لَن يُؤْمِنَ مِن قَوْمِكَ إِلَّا مَن قَدْ آمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ
اور نوح کو میری طرف سے وحی بھیجی گئی کہ اب آپ کی قوم کا کوئی آدمی ایمان (٢٥) نہیں لائے گا، سوائے ان کے جو ایمان لاچکے ہیں، تو آپ ان کے کرتوتوں پر افسوس نہ کیجیے۔
وَ اُوْحِيَ اِلٰى نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ يُّؤْمِنَ ....: نوح علیہ السلام سے متعلق قرآن مجید کی تمام آیات پر مجموعی نظر ڈالیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے بے مثال صبر کے ساتھ مسلسل صدیوں دعوت دینے کے باوجود قوم نے ان کے انکار اور ایذا رسانی میں کوئی کمی نہ کی، بلکہ ہر نسل اپنی اولاد کو وصیت کرکے مرتی رہی کہ دیکھنا اپنے بتوں کو ہر گز نہ چھوڑنا اور نوح علیہ السلام کی بات مت ماننا۔ (سورۂ نوح) اس کے باوجود نوح علیہ السلام پُر امید رہ کر نہایت استقامت کے ساتھ انھیں دعوتِ توحید دیتے رہے، مگر جب اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ اطلاع دی کہ اب آئندہ آپ کی قوم میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا تو انھوں نے ان پر عذاب کے لیے بددعا کی۔ جس کا ذکر سورۂ قمر (۱۰) میں ہے، فرمایا : ﴿ اَنِّيْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ ﴾ ’’بے شک میں مغلوب ہوں سو تو بدلہ لے۔‘‘ اور سورۂ نوح میں ان کی دعا کے الفاظ ہیں : ﴿ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا ﴾ ’’اے میرے رب! زمین پر ان کافروں میں سے کوئی رہنے والا نہ چھوڑ۔‘‘ آیت (۲۶) سے آخر سورت تک ملاحظہ فرمائیں۔