وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اور اس طرح ہم نے تمہیں اے مسلمانو ! ایک معتد (٢٠٨) اور بہترین امت بنایا تاکہ تم لوگوں کے بارے میں گواہی (٢٠٩) دو، اور رسول تمہارے بارے میں گواہی دیں اور وہ قبلہ جس طرف آپ پہلے سے متوجہ ہوتے تھے، ہم نے اس لیے بنایا تھا تاکہ دیکھیں کہ کون ہمارے رسول کی اتباع کرتا ہے (٢١٠) اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، اور اسے قبول کرنا بہت ہی بھاری گذر رہا تھا، سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ نے ہدایت دی، اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارا سابق ایمان (وعمل) ضائع کردے، بے شک اللہ لوگوں کے لیے بہت ہی شفقت اور رحمت والا ہے
1۔ وسط کا معنی درميان ہے، افضل چیز کو بھی وسط کہہ لیتے ہیں ، کیونکہ درمیانی چیز سب سے بہتر ہوتی ہے۔ یہاں مراد سب سے بہتر ہے، جیساکہ فرمایا : ﴿كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ﴾ [ آل عمران : ۱۱۰] ’’تم سب سے بہتر امت چلے آئے ہو، جو لوگوں کے لیے نکالی گئی۔‘‘ کیونکہ دو نقطوں کے درمیان سب سے مختصر اور صحیح خط مستقیم ہی ہوتا ہے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کا معنی یہاں ’’عدل‘‘ روایت کیا ہے۔ [ بخاری، التفسیر : ۴۴۸۷] عدل کا معنی ثقہ اور قابل اعتماد بھی ہے، اعتقاد و اخلاق اور اعمال میں معتدل اور پہلی امتوں کی افراط و تفریط سے پاک بھی۔ نہ یہاں یہود کی سختی ہے نہ نصاریٰ کی نرمی۔ (کبیر، قرطبی) 2۔وَ كَذٰلِكَ .....: یعنی جس طرح یہ دو باتیں تمھارے پاس پوری ہیں اور تمھارے مخالفوں کے پاس ناقص، ایک یہ کہ تم تمام انبیاء کو مانتے ہو اور یہود و نصاریٰ کسی کو مانتے ہیں کسی کو نہیں ، دوسری یہ کہ تمھارا قبلہ کعبہ ہے، جو ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے مقرر ہے اور ابراہیم علیہ السلام سب کے پیشوا ہیں ، یہود و نصاریٰ اور ان کے قبلے بعد کی بات ہیں ۔ اسی طرح ہم نے تمھیں ہر کام میں افضل امت بنا دیا ہے۔ اس لیے اب تمھارا کام ہے کہ تم دوسروں کی راہنمائی کرو، ان کا کام نہیں کہ تمھاری راہنمائی کریں ۔ (موضح) 3۔ لِتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ....:اس سے تین طرح کی شہادت مراد ہے، پہلی یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شہادت دیں گے کہ انھوں نے صحابہ تک پیغام حق پہنچا دیا، صحابہ تابعین پر اور اسی طرح امت کا ہر طبقہ آنے والوں پر یہ شہادت دے گا۔ اس امت کے افضل ہونے کا سبب بھی یہی ہے کہ وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں ، جیسا کہ سورۂ آل عمران (۱۱۰) میں فرمایا : ﴿كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ﴾ ، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ دیا : ’’اے لوگو ! تم اللہ کے سامنے ننگے پاؤں ، ننگے جسم اور بغیر ختنہ کے اکٹھے کیے جانے والے ہو۔‘‘ پھر فرمایا : ’’اور میری امت کے کچھ لوگوں کو بائیں طرف لے جایا جائے گا تو میں کہوں گا، پروردگارا ! یہ تو میرے ساتھی ہیں ، تو کہا جائے گا، آپ نہیں جانتے انھوں نے آپ کے بعد کیا نیا کام کیا تھا۔ تو میں کہوں گا جیسے صالح بندے (عیسیٰ علیہ السلام ) نے کہا تھا : ﴿وَ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ﴾ [ المائدۃ : ۱۱۷] ’’اور میں ان پر گواہ تھا جب تک میں ان میں رہا، پھر جب تونے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگران تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے۔‘‘ [ بخاری، التفسیر، باب : ﴿و کنت علیہم شہیدًا ....﴾ :۴۶۲۵] یہی بات جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حجۃ الوداع میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھی : ’’کیا میں نے (اللہ تعالیٰ کا) پیغام(آپ لوگوں تک) پہنچا دیا ؟‘‘ تو سب نے کہا : ’’بے شک آپ نے پہنچا دیا۔‘‘ [بخاری، الحج، باب الخطبۃ أیام منٰی : ۱۷۴۱] اب ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ یہ پیغام آنے والوں تک پہنچائے، تبھی وہ ان پر شہادت دے سکے گا اور تبھی وہ امتِ وسط کہلانے کا حق دار ہو گا اور جو امتِ مسلمہ کی تمام گمراہی دیکھ کر بھی خاموش رہے گا وہ نہ گواہی دے سکے گا اور نہ امتِ وسط کا مصداق ہو گا۔ دوسری وہ شہادت ہے جو امت مسلمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے خبر دینے کی بنا پر پہلی تمام امتوں پر دے گی کہ ان کے انبیاء نے اللہ کے احکام ان تک پہنچا دیے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’نوح علیہ السلام اور ان کی امت آئے گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تم نے پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ عرض کریں گے، ہاں اے میرے رب ! پھر ان کی امت کو فرمائے گا، کیا انھوں نے تمھیں پیغام پہنچا دیا تھا؟ تو وہ کہیں گے، نہیں ! ہمارے پاس تو کوئی نبی آیا ہی نہیں ۔ تو اللہ تعالیٰ نوح( علیہ السلام ) سے فرمائے گا، تمھاری شہادت کون دے گا؟ وہ عرض کریں گے، محمد( صلی اللہ علیہ و سلم) اور ان کی امت، پھر ہم شہادت دیں گے کہ یقیناً انھوں نے پیغام پہنچا دیا تھا اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ﴿وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ ﴾ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ عزوجل : ﴿ولقد أرسلنا .... ﴾ : ۳۳۳۹، ۴۴۸۷، عن أبی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ ] تیسری شہادت دنیا ہی میں مسلمانوں کی کسی کے حق میں نیک یا بد ہونے کی شہادت ہے، جس کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک جنازے کے لیے جنت اور دوسرے کے لیے جہنم واجب ہونے کا اعلان فرمایا اور فرمایا : (( أَنْتُمْ شُهَدَاءُ اللّٰهِ فِي الْاَرْضِ)) ’’تم زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔‘‘ [ بخاری، الجنائز، باب ثناء الناس علی المیت : ۱۳۶۷] 4۔ وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ....: یہ تحویلِ قبلہ کی ایک حکمت بیان فرمائی ہے۔ قریش کو بطور قبلہ بیت اللہ عزیز تھا اور اہلِ کتاب کو بیت المقدس۔ پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کرکے قریش اور ان کے ساتھیوں کی آزمائش ہوئی، پھر بیت اللہ کو مقرر کرکے اہل کتاب کی۔ اپنے محبوب قبلہ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی فرماں برداری میں ترک کرنا ہدایت یافتہ لوگوں کے سوا دوسروں کے لیے نہایت مشکل تھا، اس لیے جنھیں یہ ہدایت نصیب نہ تھی وہ ڈگمگا گئے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پہلے جس قبلے کی طرف آپ رخ کرتے تھے وہ بھی اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا تھا، اگرچہ قرآنِ مجید میں اس حکم کا ذکر نہیں ہے۔ یہ دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن مجید کے علاوہ بھی احکام نازل ہوتے تھے، جنھیں وحی خفی یا حدیث کہا جاتا ہے اور انھیں ماننا بھی قرآن کی طرح فرض ہے۔ 5۔ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ: براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تحویل قبلہ سے قبل کئی آدمی پہلے قبلے کے زمانے میں قتل ہو کر فوت ہو چکے تھے، ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ ہم ان کے متعلق کیا کہیں تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا : ﴿وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ ﴾ ’’اور اللہ کبھی ایسا نہیں کہ تمھارا ایمان ضائع کر دے۔‘‘ یعنی تمھاری پہلی نمازیں اللہ کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ [بخاری، الإیمان، باب الصلاۃ من الإیمان: ۴۰] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نماز کو ایمان قرار دیا۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ صرف دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کو ایمان قرار دیتے ہیں ان کی بات درست نہیں ، بلکہ اعمال بھی ایمان کا جز ہیں اور نماز اور زکوٰۃ تو ایسا جز ہیں جن کے بغیر بندہ اسلامی برادری ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَة﴾ کا حصہ ہی نہیں بنتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ﴾ [ التوبۃ : ۱۱] ’’پس اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو دین میں تمھارے بھائی ہیں ۔‘‘ اور جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (( إِنَّ بَیْنَ الرَّجُلِ وَ بَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلاَۃِ )) [ مسلم، الإیمان، باب بیان إطلاق اسم ....: ۸۲] ’’آدمی کے درمیان اور شرک و کفر کے درمیان (فرق) نماز کا چھوڑنا ہے۔‘‘