وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ۚ أُولَٰئِكَ يُعْرَضُونَ عَلَىٰ رَبِّهِمْ وَيَقُولُ الْأَشْهَادُ هَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ
اور اس سے بڑھ کر ظالم (١٦) کون ہوگا جو اللہ کے بارے میں جھوٹ بولتا ہے، ایسے لوگ (میدان محشر میں) اپنے رب کے سامنے پیش کیے جائیں گے، اور گواہان کہیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھوٹ بولا تھا، آگاہ رہیے کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔
1۔ وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا: یعنی اپنی جان پر ظلم کرنے والے بہت ہیں، مگر اس سے بڑھ کر کوئی نہیں جو جھوٹ گھڑ کر اللہ تعالیٰ کے ذمے لگا دے، مثلاً مخلوق کو خالق کی صفات رکھنے والا قرار دے، بتوں، ولیوں اور دیوتاؤں کو اللہ کے حضور بلا اجازت سفارش کی جرأت رکھنے والے سمجھے، فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے اور مسیح علیہ السلام یا کسی اور کو اللہ کی اولاد یا اس کا حصہ یا ٹکڑا قرار دے۔ موضح میں ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھنا کئی طرح سے ہے، مثلاً علم میں غلط نقل کرنا۔ (آل عمران : ۷۸) نبوت یا وحی کا جھوٹا دعویٰ کرنا۔ (انعام : ۹۳) خواب بنا لینا، ابن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ مِنْ أَفْرَی الْفِرٰی أَنْ يُّرِيَ عَيْنَيْهٖ مَا لَمْ تَرَ )) [ بخاري، التعبیر، باب من کذب فی حلمہ : ۷۰۴۳ ] ’’سب سے بڑے جھوٹوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اپنی آنکھوں کو وہ چیز دکھائے جو انھوں نے نہیں دیکھی (یعنی جھوٹا خواب بیان کرے)۔‘‘ درایت یا عقل کو دین کے معاملات میں درمیان لے آنا۔ (قصص : ۵۰) 2۔ اُولٰٓىِٕكَ يُعْرَضُوْنَ عَلٰى رَبِّهِمْ: اللہ تعالیٰ ایسے مفتری اور جھوٹے کفار و مشرکین اور منافقین کو قیامت کے دن سب کے سامنے رسوا کرے گا اور گواہ بھی سب کے سامنے ان کے رب تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کی شہادت دیں گے۔ البتہ مومن گناہ گاروں کا معاملہ اس سے مختلف ہو گا۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : (( إِنَّ اللّٰهَ يُدْنِي الْمُؤْمِنَ فَيَضَعُ عَلَيْهِ كَنَفَهٗ وَيَسْتُرُهٗ فَيَقُوْلُ أَتَعْرِفُ ذَنْبَ كَذَا ؟ أَتَعْرِفُ ذَنْبَ كَذَا؟ فَيَقُوْلُ نَعَمْ أَيْ رَبِّ، حَتَّی قَرَّرَهٗ بِذُنُوْبِهِ وَرَأَی فِيْ نَفْسِهِ أَنَّهٗ هَلَكَ، قَالَ سَتَرْتُهَا عَلَيْكَ فِيْ الدُّنْيَا، وَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ، فَيُعْطَی كِتَابَ حَسَنَاتِهِ، وَأَمَّا الْكَافِرُ وَالْمُنَافِقُوْنَ فَيَقُوْلُ الْأَشْهَادُ: ﴿ هٰۤؤُلَآءِ الَّذِيْنَ كَذَبُوْا عَلٰى رَبِّهِمْ اَلَا لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِيْنَ ﴾ [هود:۱۸ ] [ بخاری، المظالم، باب قول اللہ تعالٰی : ﴿ ألا لعنۃ اللّٰہ علی الظالمین ﴾ : ۲۴۴۱ ] ’’اللہ تعالیٰ مومن کو قریب کرے گا اور اس پر اپنا دامن ڈال کر پردے میں کرے گا، پھر کہے گا کہ تو فلاں گناہ پہچانتا ہے؟ کیا فلاں گناہ پہچانتا ہے؟ وہ کہے گا، ہاں اے میرے رب! یہاں تک کہ جب اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کروا لے گا اور وہ اپنے دل میں سمجھ لے گا کہ وہ ہلاک ہو گیا تو (اللہ تعالیٰ) فرمائے گا، میں نے دنیا میں تجھ پر ان گناہوں پر پردہ ڈالا اور آج میں تجھے وہ بخشتا ہوں، تو اسے اس کی نیکیوں کی کتاب دے دی جائے گی۔ رہا کافر اور منافق، تو گواہ کہیں گے : ﴿ هٰؤُلَآءِ الَّذِيْنَ كَذَبُوْا عَلٰى رَبِّهِمْ اَلَا لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِيْنَ ﴾ ’’یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا۔ سن لو ! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘ 3۔ وَ يَقُوْلُ الْاَشْهَادُ هٰۤؤُلَآءِ الَّذِيْنَ ....: گواہوں سے مراد ان کے پیغمبر یا وہ فرشتے جو عمل لکھتے ہیں اور علماء جنھوں نے اللہ کے احکام کی تبلیغ کی۔ یہ سب گواہ کفار کے متعلق اعلان کریں گے کہ یہی لوگ ہیں جو اپنے پروردگار سے جھوٹی باتیں منسوب کرتے تھے۔