وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۗ وَلَئِن قُلْتَ إِنَّكُم مَّبْعُوثُونَ مِن بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ
اور اسی نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا (٧) کیا ہے، اور اس کے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا، تاکہ تمہیں آزما کر دیکھے کہ تم میں عمل کے اعتبار سے کون زیادہ اچھا ہے، اور اگر آپ کہیں گے کہ تم لوگ موت کے بعد دوبارہ اٹھائے (٨) جاؤ گے، تو کافر کہیں گے کہ یہ قرآن کھلا جادو ہے۔
1۔ وَ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ: اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ کے کمال علم کو ثابت فرمایا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال کا بیان ہے۔ آسمان و زمین کی چھ دنوں میں پیدائش کے متعلق دیکھیے سورۂ اعراف(۵۴) اور حم السجدہ (۹ تا ۱۲)۔ 2۔ وَ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ: اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ آسمان و زمین پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا، پھر سب سے پہلے کیا پیدا کیا؟ اس کے متعلق مختلف روایات آئی ہیں۔ عمران بن حصین رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اہل یمن کے کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس امر (کائنات) کی ابتدا کے متعلق پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( كَانَ اللّٰهُ وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ قَبْلَهٗ وَكَانَ عَرْشُهٗ عَلَی الْمَاءِ ثُمَّ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَكَتَبَ فِيْ الذِّكْرِ كُلَّ شَيْءٍ)) [ بخاری، التوحید، باب : ﴿ و کان عرشہ علی الماء﴾ : ۷۴۱۸ ] ’’اللہ تعالیٰ تھا اور اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی اور اس کا عرش پانی پر تھا، پھر اس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور ذکر (لوح محفوظ) میں ہر چیز لکھ دی۔‘‘ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((كَتَبَ اللّٰهُ مَقَادِيْرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ يَّخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِيْنَ أَلْفَ سَنَةٍ قَالَ وَ عَرْشُهٗ عَلَي الْمَاءِ)) [مسلم، القدر، باب حجاج آدم و موسٰی صلی اللّٰہ علیہما وسلم : ۲۶۵۳ ] ’’اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیریں آسمان و زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ دیں اور اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘ سنن ترمذی (۳۱۰۹) اور ابن ماجہ (۱۸۲) کی روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا : ’’خلق کی پیدائش سے پہلے ہمارا پروردگار کہاں تھا؟‘‘ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( كَانَ فِيْ عَمَاءٍ مَا تَحْتَهُ هَوَاءٌ وَمَا فَوْقَهُ هَوَاءٌ)) ’’عَمَاءٌ‘‘ کا معنی نہایہ میں لکھا ہے، بادل، پتلا سا بادل یا نامعلوم چیز، جس کی حقیقت سے ہم ناواقف گویا اعمیٰ ہیں۔ حدیث کا ترجمہ ہے : ’’اللہ تعالیٰ ایک عماء (نامعلوم چیز) میں تھا، اس کا اوپر خالی تھا اور اس کے نیچے بھی خلا تھا۔‘‘ مگر شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ اور ان سے پہلے رازی اور دوسرے اہل علم رحمۃ اللہ علیھم نے اسے ضعیف کہا ہے، جبکہ استدلال خصوصاً عقیدے میں اور اتنے اہم مسئلہ میں صحیح حدیث ہی سے ہو سکتا ہے۔ صحیح حدیث جس سے اس مسئلے پر روشنی پڑتی ہے، یہ ہے کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : (( إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ تَعَالَی الْقَلَمُ فَقَالَ لَهُ اكْتُبْ فَقَالَ رَبِّ وَ مَاذَا أَكْتُبُ؟ قَالَ اكْتُبْ مَقَادِيْرَ كُلِّ شَيْءٍ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَةُ )) [ أبوداؤد، السنۃ، باب في القدر : ۴۷۰۰۔ ترمذی: ۳۳۱۹ ] ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جو پیدا کیا قلم تھا تو اسے فرمایا : ’’لکھ۔‘‘ اس نے کہا : ’’اے میرے رب ! میں کیا لکھوں؟‘‘ فرمایا : ’’ہر چیز کی تقدیریں لکھ، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو۔‘‘ یہ حدیث صحیح ہے، شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔ ہمارے شیخ محمد عبدہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہی (بات) صحیح ہے، البتہ شیخ محمد عبدہ رحمہ اللہ نے قلم کی پیدائش اور تقدیر کا لکھا جانا پانی اور عرش کے بعد لکھا ہے۔ شاید ان کا استدلال اس آیت : ﴿ وَ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ ﴾ سے ہو۔ (واللہ اعلم) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی قلم سے پہلے عرش اور پانی کے پیدا کیے جانے کا ذکر کیا ہے اور اس کے کچھ دلائل ذکر کیے ہیں۔ دیکھیے فتح الباری میں ’’ كِتَابُ بَدْءِ الْخَلْقِ ‘‘ کا پہلا باب۔ ایک روایت میں ہے کہ سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا، مگر وہ روایت ضعیف ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’المنار المنيف ‘‘ میں لکھا ہے کہ عقل کے متعلق تمام احادیث باطل ہیں۔ 2۔ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا: اللہ تعالیٰ کو جس طرح گزشتہ اور موجودہ ہر بات کا علم ہے، اسے یہ بھی معلوم ہے کہ آئندہ کیا ہو گا، مگر آئندہ ہونے والی چیز کے متعلق یہ علم کہ وہ واقع ہو چکی ہے، اس کے واقع ہونے کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ آزمانے کا مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق جو کچھ آئندہ ہونا ہے وہ وجود میں آ کر سب کے سامنے آ جائے اور نتیجہ دوسروں کے سامنے بھی ظاہر ہو جائے۔ قرآن مجید میں ’’لِيَعْلَمَ ‘‘ اور ’’لِيَبْلُوَكُمْ ‘‘ وغیرہ الفاظ جہاں بھی آئے ہیں ان سے مراد یہی ہے۔ 3۔ اَحْسَنُ عَمَلًا: یعنی آزمائش یہی نہیں کہ عمل میں برا کون ہے اور اچھا کون، بلکہ اللہ تعالیٰ ایسا قدر دان ہے کہ عمل میں اچھائی کے درجات کو بھی ملحوظ رکھتا ہے کہ زیادہ اچھا کون ہے، جیسے فرمایا : ﴿ هُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ ﴾ [آل عمران : ۱۶۳ ] ’’وہ لوگ (اللہ کی رضا چاہنے والے) اللہ کے ہاں کئی درجوں والے ہیں اور اللہ خوب دیکھنے والا ہے جو وہ کر رہے ہیں۔‘‘ بلکہ برے عمل میں بھی سب کو ایک جیسا نہیں رکھا، منافقین آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہیں، جبکہ ابو طالب صرف آگ کے جوتے پہنے ہوئے ہے۔ رہی یہ بات کہ کیسے پتا چلے گا کہ میں اچھا عمل کر رہا ہوں تو یہ صرف اللہ تعالیٰ کے بتانے ہی سے معلوم ہو سکتا ہے، اس لیے اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ اچھے عمل کے لیے دو شرطیں ہیں، ایک یہ کہ عمل خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہو، دوسری یہ کہ کتاب و سنت کے مطابق ہو، کیونکہ اس میں جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا ہے۔ 4۔ وَ لَىِٕنْ قُلْتَ اِنَّكُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ ....: اللہ تعالیٰ کے علم، قدرت اور خلق (پیدا کرنے) جیسی صفات کو بادلائل ذکر کرنے کے بعد بھی اگر آپ ان مشرکوں سے کہیں کہ اتنی زبردست قوتوں والے رب نے تمھیں موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے علم، قدرت، زمین و آسمان اور خود ان کو پیدا کرنے اور عرش عظیم کا مالک ہونے کو جاننے اور ماننے کے باوجود دوبارہ زندہ کرنے کی بات کرنے پر عقل و دانش سے مکمل عاری ہو کر کہہ دیں گے کہ یہ تو کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں، یعنی دوبارہ زندہ ہونے کی کچھ حقیقت نہیں، جو لوگ اسے مان بیٹھے ہیں ان پر جادو ہو گیا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ پھر تم اس جادو کی زد میں آنے سے کیسے بچ گئے ؟