وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنظِرُونِ
اور آپ انہیں نوح (علیہ السلام) کا واقعہ (٥١) سنا دیجیے۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم ! اگر تمہارے ساتھ میرا رہنا اور اللہ کی آیتوں کی یاددہانی تم پر شاق گزرتی ہے تو میں نے اللہ پر توکل کرلیا ہے، تم اپنی پوری تیاری کرلو، اور اپنے شرکاء کو بھی ساتھ کرلو، پھر تمہاری تدبیر کسی حیثیت سے بھی تمہارے لیے مخفی نہ رہے، پھر میرے ساتھ اسے کر گزرو، اور مجھے مہلت نہ دو۔
1۔ وَ اتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍ ....: نبوت پر کفار کے شبہات اور ان کے مدلل جوابات بیان کرنے کے بعد یہاں کئی انبیاء کا ذکر فرمایا، خصوصاً تین انبیاء کے قصے کچھ تفصیل سے بیان فرمائے۔ اس میں کئی حکمتیں ہیں : (1) انداز بیان بدلنے اور نئی بات شروع کرنے سے سننے والوں میں اکتاہٹ پیدا نہیں ہوتی اور آدمی خوش دلی اور رغبت سے بات سنتا رہتا ہے۔ ایک ہی قسم کی بات خواہ کتنی علمی ہو، لمبی ہو جائے تو رغبت کم ہو جاتی ہے۔ (2) تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے پیروکاروں کو ان واقعات کے سننے سے تسلی ہو اور وہ کفار کی ایذا رسانی سے ملول نہ ہوں، بلکہ ان انبیاء اور ان کے ساتھیوں کو اپنے لیے اسوہ اور نمونہ بنائیں۔ (3) کفار کو بھی تنبیہ ہو تاکہ وہ دنیا میں سب سے پہلے اور پھر سب سے آخر میں غرق ہونے والی قوموں کے انجام پر غور کریں اور اس قسم کی گستاخیوں سے باز آ جائیں۔ (4) پھر ان تاریخی قصوں کو کسی قسم کی کمی بیشی کے بغیر ایک اُمّی نبی کا بیان کرناخود اس کے صدق نبوت کی دلیل بھی ہے۔ 2۔ نوح علیہ السلام اولوالعزم رسولوں میں سے ایک ہیں۔ قرآن میں ان کا ذکر تینتالیس (۴۳) جگہ آیا ہے، ان کی قوم بت پرست تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اولین مخاطب اہل عرب بھی بت پرست تھے، ان کے بتوں کے نام بھی تقریباً ملتے جلتے تھے۔ نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر سورۂ اعراف، ہود، مومنون اور نوح میں زیادہ تفصیل کے ساتھ آیا ہے، یہاں مختصر ذکر ہے اور ان کی زندگی کا یہ پہلو زیادہ نمایاں کیا ہے کہ طویل مدت تک اپنی قوم میں رہنے اور ان کے ایمان نہ لانے کے باوجود ان کا اللہ تعالیٰ پر اتنا بھروسا تھا کہ انھوں نے اپنی قوم کو چیلنج کیا کہ تم سب مل کر مجھے جو نقصان پہنچا سکتے ہو پہنچا لو۔ 3۔ ’’فَاَجْمِعُوْا ‘‘ باب افعال سے امر ہے، ’’ اَجْمَعْتُ عَلَي الْاَمْرِ‘‘ یعنی میں نے فلاں کام کا پکا ارادہ کرلیا۔ ’’ وَ شُرَكَآءَكُمْ ‘‘ مفعول معہ ہے اور واؤ بمعنی ’’مَعَ ‘‘ ہے۔ ’’غُمَّةً ‘‘ پوشیدگی کے معنی میں ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے : ’’غَمَّ عَلٰي فُلاَنٍ الْاَمْرُ‘‘ ’’فلاں شخص پر معاملہ مخفی اور پوشیدہ رہا۔‘‘ یعنی نوح علیہ السلام نے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ پوری قوم کی اور ان کے جہالت سے بنائے ہوئے خداؤں کی ذرہ برابر وقعت نہیں سمجھتے اور ان کا اپنے رب پر اتنا توکل ہے کہ وہ ان کی کسی سازش سے نہیں ڈرتے، سب کو صاف چیلنج کیا کہ اگر میرا تم میں رہنا اور نصیحت کرنا تم پر بھاری ہے اور تم سمجھانے سے سمجھنے پر کسی طرح تیار نہیں تو اپنے بتوں کے ساتھ مل کر، جنھیں تم جہالت اور بے شرمی سے اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتے ہو، میرے خلاف جو سازش میرے قتل یا ایذا کی کر سکتے ہو کر لو۔ 4۔ ثُمَّ لَا يَكُنْ اَمْرُكُمْ ....: یعنی میرے مار ڈالنے کا جو منصوبہ تیار کرو اس پر اچھی طرح غور کر لو تاکہ اس کا کوئی پہلو تم پر ڈھکا چھپا نہ رہے، پھر میرے ساتھ جو کرنا چاہتے ہو کر گزرو اور مجھے مہلت مت دو۔ 5۔ ان آیات سے نوح علیہ السلام کی انتہا درجے کی شجاعت، اللہ تعالیٰ پر کمال توکل، مخلوق سے کلی استغناء اور فریضۂ رسالت کی نہایت طویل مدت تک بغیر وقفے یا اکتاہٹ یا تھکاوٹ کے مسلسل ادائیگی اور اس کے دوران آنے والی ہر تکلیف، طعن اور استہزا کو کمال صبر سے برداشت کرنا ظاہر ہو رہا ہے۔ تبھی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حکم ہوا کہ ان اولوالعزم پیغمبروں کی طرح صبر کرو۔ ہمیں تو ان پر پیش آنے والے حالات کے تصور ہی سے پسینا آ جاتا ہے اور بدن کانپ جاتا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دعوت کے کام کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔(آمین)