سورة یونس - آیت 57

يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے نصیحت اور بیماریوں کا علاج (٤٤) آگیا جو سینوں میں ہوتی ہیں، اور مومنوں کے لیے ہدایت و رحمت آگئی۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يٰاَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ ....: یہاں سے تمام لوگوں کو مخاطب کرکے قرآن مجید کی برکات اور خوبیاں بیان فرمائی ہیں۔ چنانچہ بنیادی خصوصیت اس کی یہ ہے کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے تمھارے پاس آئی ہے، اب دنیا کی کسی اور کتاب کو یہ درجہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ پھر اس کی چار صفات بیان فرمائیں، پہلی یہ کہ یہ ’’مَوْعِظَةٌ ‘‘ ہے، تنوینِ تعظیم کی وجہ سے ’’عظیم نصیحت‘‘ ترجمہ کیا ہے۔ خلیل نے فرمایا کہ اس کا معنی نیکی کی نصیحت ہے جس سے دل نرم ہو جائے۔ (مفردات) راغب نے خود اس کا معنی کیا ہے کہ کسی کام سے منع کرنا، جس کے ساتھ ڈرانا بھی شامل ہو، گویا یہ کتا ب موعظت نرمی و سختی ہر طرح سے سمجھا کر انسان کی اصلاح کرتی ہے۔ دوسری صفت ہے ’’وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ‘‘ یعنی یہ کتاب دلوں میں جو کفر و نفاق، حسد و ریا اور برے اخلاق کی بیماریاں پائی جاتی ہیں ان کے لیے سراسر تندرستی کا باعث ہے۔ بعض لوگوں نے ان آیات سے یہ بات اخذ کی ہے کہ قرآن مجید جسمانی بیماریوں کا بھی علاج ہے، جیسا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کرنے سے سانپ کا ڈسا ہوا تندرست ہو گیا اور انھوں نے اس پر تیس بکریاں لیں۔ [ بخاری، الإجارۃ، باب ما یعطي في الرقیۃ علی أحیاء العرب ....: ۲۲۷۶ ] اور خارجہ بن صلت رضی اللہ عنہ کے چچا نے بیڑیوں میں جکڑے ہوئے پاگل آدمی کو سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو وہ تندرست ہو گیا اور ان لوگوں نے انھیں ایک سو بکریاں دیں۔ [ أبوداؤد، الطب، باب کیف الرقی : ۳۸۹۶ و صححہ الألبانی ] اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ سورۂ فاتحہ اور دوسری آیات پڑھ کر دم کرنے سے اللہ تعالیٰ چاہے تو شفا ہوتی ہے اور صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ کافروں پر دم کریں تو انھیں بھی ہوتی ہے، مگر ان آیات کا یہ مطلب نہیں بلکہ ان سے مراد روحانی بیماریاں کفر و شرک، نفاق اور حسد و بغض وغیرہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ وَ لَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا ﴾ [ بنی إسرائیل : ۸۲ ] ’’اور ہم قرآن میں سے تھوڑا تھوڑا نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے سراسر شفا اور رحمت ہے اور وہ ظالموں کو خسارے کے سوا کسی چیز میں زیادہ نہیں کرتا۔‘‘ اور فرمایا : ’’اور رہے وہ لوگ کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے تو اس (سورت) نے ان کو ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی میں زیادہ کر دیا اور وہ اس حال میں مرے کہ وہ کافر تھے۔‘‘ [ التوبۃ : ۱۲۵ ] اور فرمایا : ’’کہہ دے یہ (قرآن) ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہدایت اور شفا ہے اور وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے اور یہ ان کے حق میں اندھا ہونے کا باعث ہے۔‘‘ [ حٰمٓ السجدۃ : ۴۴ ] یعنی کفار کو اس سے سینے کی بیماریوں سے شفا نہیں ہوتی۔ تیسری صفت ’’هُدًى ‘‘ نرمی اور مہربانی کے ساتھ راستہ بتانا۔ (مفردات) چوتھی صفت ’’رَحْمَةٌ ‘‘ ہے، اس کا معنی ہر شخص سمجھتا ہے۔ یہاں چاروں صفات ’’مَوْعِظَةٌ ، شِفَآءٌ ، هُدًى ، رَحْمَةٌ ‘‘ مبالغہ کے لیے مصدر کے لفظ کے ساتھ آئی ہیں، مراد ان سے اسم فاعل کا مفہوم ہے، جیسے کہتے ہیں ’’زَيْدٌ عَدْلٌ‘‘ زید انصاف ہے۔ مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اتنا عادل ہے کہ گویا سراسر عدل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص تو سراپا حسن ہے، مراد بہت حسن والا ہوتا ہے، یعنی یہ کتاب اس قدر نصیحت، شفا، ہدایت اور رحمت والی ہے، گویا یہ اہل ایمان کے لیے سراسر نصیحت، شفا، ہدایت اور رحمت ہے۔