وَلَوْ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الْأَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهِ ۗ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ ۖ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور ہر وہ شخص جس نے دنیا میں شرک کیا ہوگا، اگر وہ زمین کی ہر چیز کا مالک ہوگا تو اسے دے کر اپنی جان چھڑانا (٤٢) چاہے گا، اور جب وہ عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو اپنی ندامت کو چھپائیں گے، اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا، اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
1۔ وَ اَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ : یعنی جس عذاب کا وہ ساری عمر مذاق اڑاتے رہے جب وہ ان کی توقع کے بالکل خلاف یکایک سامنے آ جائے گا تو ان کی عجیب کیفیت ہو گی، ایک طرف وہ سخت شرمندہ ہوں گے اور ان کے ضمیر انھیں کوس رہے ہوں گے، لیکن دوسری طرف وہ اپنی شرمندگی کو اپنے ساتھیوں اورماننے والوں سے چھپانا بھی چاہیں گے کہ کہیں وہ ملامت نہ کریں، اس لیے دل ہی دل میں شرمندہ ہوں گے اور بظاہر مطمئن بننے کی کوشش کریں گے۔ قاموس میں لکھا ہے کہ ’’اَسَرَّهُ ‘‘ اضداد میں سے ہے، اس کا معنی چھپانا بھی ہے اور ظاہر کرنا بھی۔ دوسرا معنی یہ بنے گا کہ وہ عذاب دیکھیں گے تو ندامت کا اظہار کریں گے۔ 2۔ وَ هُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ: یعنی یہ عذاب ان کے اعمال ہی کا نتیجہ ہو گا، اس لیے وہ عین انصاف ہو گا اور ان پر کسی طرح ظلم نہیں ہو گا۔