سورة یونس - آیت 46

وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللَّهُ شَهِيدٌ عَلَىٰ مَا يَفْعَلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم یا تو آپ کو اس عذاب (٣٧) کا بعض حصہ دکھلائیں گے جس کا ان سے وعدہ کرتے ہیں، یا آپ کو اس سے پہلے ہی (دنیا سے) اٹھا لیں گے۔ بہرحال انہیں ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے، پھر اللہ ان کے اعمال کا گواہ ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُهُمْ....: یعنی اسلام کے غلبے اور مخالفین کی ذلت و خواری، یعنی قتل و قید اور شکست کے جو وعدے ہم ان کفار سے وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں، اگر ہم ان میں سے بعض آپ کی زندگی ہی میں پورے کرکے آپ کو دکھلا دیں، یا ان میں سے بعض کے پورا کرنے سے پہلے ہی آپ کو اٹھا لیں، دونوں حالتوں میں انھیں ہماری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس پر اچھی طرح گواہ ہے جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں۔ وہاں وہ ان کا انجام آپ کو دکھا دے گا۔ ’’شَاهِدٌ ‘‘ کا معنی گواہ اور ’’شَهِيْدٌ ‘‘ میں مبالغہ ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کچھ وعدے آپ کی زندگی میں پورے کر دکھائے، مثلاً اہل مکہ پر قحط، بھوک اور خوف کا مسلط ہونا۔ دیکھیے نحل (۱۱۲) اس قحط کی وجہ سے ان کا ہڈیاں تک کھا جانا اور زمین و آسمان کے درمیان انھیں ہر طرف دھواں نظر آنا ۔ دیکھیے دخان (۱۰، ۱۱) حتیٰ کہ اس وقت کفار کے سردار ابوسفیان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر یوں بارش کی دعا کی درخواست کی: ((أَيْ مُحَمَّدُ إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوْا، فَادْعُ اللّٰهَ أَنْ يَّكْشِفَ عَنْهُمْ، فَدَعَا )) [ بخاری، التفسیر، باب5 ، ثم تولوا .... : ۴۸۲۴ ] ’’اے محمد! بے شک تیری قوم کے لوگ ہلاک ہو گئے، پس آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ان سے (اس مصیبت کو) دور کر دے تو آپ نے دعا کی۔‘‘ پھر بدر، احد، خندق، حدیبیہ اور آخر میں فتح مکہ و خیبر اور پورے جزیرۂ عرب کا آپ کی زندگی میں حلقہ بگوش اسلام ہونا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی زندگی میں دکھا دیا اور کچھ وعدے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلفاء کے زمانے میں پورے ہوئے۔ بہرحال آپ کے سچا ہونے میں کوئی شک نہ رہا۔ موضح القرآن میں ہے : ’’غلبۂ اسلام کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو ہوا اور باقی آپ کے خلیفوں سے۔‘‘ شاید ’’اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ‘‘ میں دوسرے دور کی طرف اشارہ ہے۔