فَذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ ۖ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ
پس وہی اللہ تمہارا حقیقی پالنہار ہے تو اب حق کے بعد سوائے گمراہی کے اور کیا رہ جاتا ہے، پھر تمہیں حق سے کدھر پھیرا جا رہا ہے۔
1۔ فَذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ: ’’الْحَقُّ ‘‘ ثابت شدہ، سچا، یعنی تمھارے رزق، موت و حیات، تمھارے جسم کا مالک و خالق اور پوری کائنات کی تدبیر کرنے والا جب تم بھی اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے ہو تو جان لو کہ پھر تمھارا سچا، ثابت شدہ اور حق رب تو یہی اللہ ہے۔ اب خواہ کوئی بھی چیز ہو وہ یا تو حق ہو گی یا باطل، دونوں نہیں ہو سکتیں کہ حق بھی ہو باطل بھی، تو جب اللہ کا رب اور مالک ہونا حق ہے اور صرف اسی کا صاحب اختیار ہونا حق ہے تو پھر کسی اور کا صاحب اختیار ہونا یا اللہ تعالیٰ سے بات منوانے کی قوت رکھنے والا ہونا باطل نہیں تو اور کیا ہے؟ اس کے باوجود تمھارا دل کیسے مانتا ہے کہ حق کو چھوڑ کر گمراہی اور توحید کو چھوڑ کر شرک کی راہ اختیار کرتے ہو۔ سوچو! راہ حق سے کیسے ہٹائے جا رہے ہو؟ 2۔ فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ....: اس سے معلوم ہوا کہ حق ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے، یہ بات کہ جو جہاں لگا ہوا ہے لگا رہنے دو، سب ٹھیک ہیں، یا مسلمانوں میں خیر القرون کے بعد بننے والے چاروں سنی فرقے، حنفی ہوں یا شافعی، مالکی ہوں یا حنبلی سب حق ہیں، اس آیت کے خلاف ہے۔ ان تمام مذاہب کی ہر بات ایک ہی وقت میں حق کیسے ہو سکتی ہے؟ ان کے اختلافی مسائل میں حق مسئلہ اگر ہوا تو صرف ایک ہو گا، دوسرے خطا ہوں گے۔ مجتہد کو اگرچہ خطا کے باوجود اس کی نیک نیتی اور محنت کا ایک اجر مل جائے گا مگر اس کی خطا کو حق ہر گز نہیں کہہ سکتے، مثلاً ایک فرقے کی یہ بات کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور دوسرے کی یہ بات کہ صرف انگور یا کھجور کی بنائی ہوئی شراب حرام ہے، باقی نشہ آور چیزیں سب حلال ہیں، دونوں حق کیسے ہو سکتی ہیں؟ ایک کی یہ بات کہ اجرت پر لا کر کسی عورت سے زنا کرے تو اس پر حد ہے اور دوسرے کی یہ بات کہ اجرت پر لائی ہوئی عورت سے زنا کرنے پر حد نہیں، دونوں کیسے درست ہو سکتی ہیں؟ ایک مسلک کا یہ کہنا کہ ماں بہن سے نکاح کی حرمت کے علم کے باوجود نکاح کرکے زنا کر لے تو حد نہیں اور دوسرے کا یہ کہنا کہ یہ حرکت تو ارتداد ہے جس کی حد قتل ہے، دونوں باتیں کیسے درست ہو سکتی ہیں؟ پھر بہت سے ائمہ کا کہنا کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے اور اعمال ایمان کا جز ہیں اور ہمارے اور انبیاء و ملائکہ و صحابہ کے ایمان میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اس کے مقابلے میں بعض حضرات کا یہ کہنا کہ ایمان صرف دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے، اعمال خواہ نماز روزہ ہی ہوں، ایمان کا جز نہیں اور چونکہ تصدیق اور اقرار ہم نے بھی کیا ہے، جبریل علیہ السلام اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی کیا ہے، سو ایمان میں ہمارے اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں کہ کسی کا کم ہو یا کسی کا زیادہ، سب کا برابر ہے۔ آپ خود ہی بتائیں اتنے تضاد کے باوجود دونوں حق کس طرح ہو گئے؟ خلاصہ یہ کہ ہر دو متضاد چیزوں میں اگر ایک حق ہے تو یقیناً دوسری ضلال اور گمراہی ہو گی۔