سورة البقرة - آیت 132

وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور یہی وصیت ابراہیم (١٩٤) نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب نے (اپنے بیٹوں کو) کی، کہ اے میرے بیٹو، اللہ نے تمہارے لیے دین اسلام کو اختیار کرلیا ہے، اس لیے جب مرو تو اسلام کی حالت میں مرو

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

الدِّيْنَ“ سے مراد یہاں اسلام ہے، کیونکہ پچھلی آیت میں ابراہیم علیہ السلام کے اسی دین کو اختیار کرنے کا ذکر ہے۔ مسلم ہونے کی حالت میں فوت ہونا اسی وقت ممکن ہے جب بندہ ہر وقت مسلم یعنی تابع فرمان رہے، کبھی کوتاہی ہو تو فوراً توبہ کرے، کیونکہ موت کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام کو اپنے اوراپنی اولاد سے متعلق آخری وقت مسلم ہونے کی بہت فکر رہتی تھی، کیونکہ اعمال کا دارو مدار خاتمہ پر ہے، حدیث ہے: (( إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيْمِ )) [ بخاری، القدر، باب العمل بالخواتیم : ۶۶۰۷ ] یوسف علیہ السلام کی دعا ہے : ﴿ تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ ﴾ [ یوسف : ۱۰۱] ’’مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔‘‘ اگرچہ آخر وقت مسلمان ہونا بندے کے اختیار میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، مگر اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ جو آدمی دلی لگاؤ کے ساتھ نیک و بد جو بھی راستہ اختیار کرتا ہے تو اور اس پر کاربند رہنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے اسی کی توفیق دے دی جاتی ہے۔ دیکھیے سورۂ لیل (۵ تا ۱۰)۔