وَلَوْ يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُم بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ ۖ فَنَذَرُ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ
اور اگر اللہ لوگوں کو شر (١١) پہنچانے میں ویسی ہی جلدی کرتا جیسی وہ لوگ خیر کی جلدی مچاتے ہیں، تو ان کی موت کا ہی فیصلہ کردیا گیا ہوتا، پس جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے ہیں ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتے ہیں۔
وَ لَوْ يُعَجِّلُ اللّٰهُ....: ’’ تَعْجِيْلٌ ‘‘ تفعیل سے ہے، اس کا معنی وقت سے پہلے طلب کرنا اور ’’اِسْتِعْجَالٌ‘‘ کا معنی بھی جلدی طلب کرنا ہے، مگر یہاں یہ دونوں جلدی طلب کے معنی میں نہیں بلکہ جلدی دینے کے معنی میں ہیں اور حروف میں اضافہ معنی میں اضافے کے لیے ہے۔ اس آیت کی دو تفسیریں کی گئی ہیں۔ پہلی یہ کہ کفار جلدی مچاتے تھے کہ لاؤ عذاب جس سے ہمیں ڈراتے ہو، فرمایا : ﴿ وَ يَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ ﴾ [ الحج : ۴۷ ] ’’اور وہ تجھ سے عذاب جلدی مانگتے ہیں۔‘‘ حتیٰ کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ! اگر اسلام واقعی حق ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسا یا کوئی عذاب الیم بھیج دے۔ دیکھیے سورۂ انفال (۳۲) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم جس طرح انھیں خیر بہت جلدی عطا کر دیتے ہیں اسی طرح (ان کے مطالبے پر) عذاب بھی جلدی بھیج دیتے تو یہ کبھی کے ہلاک ہو چکے ہوتے، مگر ہم انھیں مہلت دے کر پورا موقع دیتے ہیں کہ واپس پلٹ آئیں۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے، انسان جب اپنے لیے یا دوسروں کے لیے بھلائی کی دعا کرتا ہے تو اسے جلد قبول فرماتا ہے، لیکن جب غصے یا رنج میں آکر اپنے منہ سے اپنے یا اپنے بچوں یا دوسروں کے لیے بددعا کے کلمات نکالتا ہے تو وہ انھیں قبول نہیں فرماتا، بلکہ ڈھیل اور مہلت دیتا ہے کہ شاید وہ اپنی اصلاح کریں اور اگر وہ یہ بھی جلدی قبول کرلے تو لوگ جلد ہی ہلاک ہو جائیں۔ اس صورت میں ’’استعجال‘‘ میں طلب کا معنی موجود ہے، ’’تعجیل‘‘ میں نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لاَ تَدْعُوْا عَلٰي أَنْفُسِكُمْ وَلاَ تَدْعُوْا عَلٰي أَوْلَادِكُمْ وَلاَ تَدْعُوْا عَلٰي خَدَمِكُمْ وَلاَ تَدْعُوْا عَلٰي أَمْوَالِكُمْ، لاَ تُوَافِقُوْا مِنَ اللّٰهِ سَاعَةَ نَيْلٍ فِیْھَا عَطَاءٌ فَيَسْتَجِيْبَ لَكُمْ )) [أبوداؤد، الوتر، باب النہي عن أن یدعو....: ۱۵۳۲، عن جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ و صححہ الألباني ] ’’اپنے آپ پر بددعا نہ کرو اور اپنی اولاد پر بددعا نہ کرو اور اپنے خادموں پر بددعا نہ کرو اور اپنے مالوں پر بددعا نہ کرو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی ایسے وقت میں دعا کر بیٹھو جس میں (مانگی ہوئی چیز) دے دی جاتی ہے اور وہ تمھاری بددعا قبول کرلے۔ ‘‘ آخر میں فرمایا کہ آخرت کے دن پر ایمان نہ لانے والوں کو ہم ان کے کفر و شرک اور ان کی سرکشی ہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتے ہیں۔ پہلی تفسیر ان الفاظ کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔