سورة یونس - آیت 7

إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بیشک جو لوگ ہماری ملاقات (١٠) کی امید نہیں رکھتے ہیں، اور دنیا کی زندگی پر خوش اور مطمئن ہیں اور جو ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا....: آخرت کے ذکر کے بعد دو آیتوں میں اس کے منکرین اور پھر اس پر ایمان والوں کا ذکر فرمایا، آخرت کے منکروں کی چار صفات بیان فرمائی ہیں، پہلی صفت ’’ لَا يَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا ‘‘ ’’رَجَاءٌ‘‘ کا لفظ طمع اور خوف دونوں معنوں میں آتا ہے، اس لیے ’’لَا يَرْجُوْنَ ‘‘ کا مطلب ہے کہ وہ اللہ سے ملاقات کی امید نہیں رکھتے، یا اس سے نہیں ڈرتے، نہ ہی آخرت میں ہونے والے حشر و نشر پر ان کا ایمان ہے۔ دوسری یہ کہ وہ دنیا کی زندگی پر خوش ہو گئے اور اس پر وہی خوش ہوتا ہے جو پورے کا پورا جسمانی لذات و خواہشات کا اسیر ہو جائے۔ تیسری یہ کہ وہ اس پر مطمئن ہو گئے، مطمئن وہی ہوتا ہے جو اسے اپنی آخری پناہ سمجھ لے، سعادت مند لوگوں کو تو اللہ کے ذکر سے اطمینان ہوتا ہے، کیونکہ ان کی آخری پناہ گاہ وہی ہے، حیاتِ دنیا کے فانی ہونے کی وجہ سے وہ کبھی اس پر مطمئن نہیں ہوتے۔ وَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ اٰيٰتِنَا غٰفِلُوْنَ: چوتھی یہ کہ وہ آسمان و زمین میں موجود بے شمار نشانیوں سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتے، نہ ان پر کچھ غورو فکر کرتے ہیں۔ اگر ان آیات سے مراد آیات قرآنی ہوں تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ ہمارے احکام سے غفلت برتتے ہیں، نہ ان پر غور کرتے ہیں اور نہ انھیں بجا لاتے ہیں۔ (ابن کثیر) ٹھکانا ان کا ان کے اعمال بد کی وجہ سے آگ ہے۔