سورة التوبہ - آیت 101

وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور آپ کے اردگرد جو دیہاتی لوگ ہیں ان میں منافقین (٧٩) پائے جاتے ہیں اور اہل مدینہ میں بھی کچھ ایسے لوگ ہیں کہ نفاق جن کی سرشت میں داخل ہوگیا ہے آپ انہیں نہیں جانتے ہیں، انہیں ہم جانتے ہیں انہیں ہم دوبارہ عذاب دیں گے، پھر وہ عذاب عظیم کی طرف بھیج دئے جائیں گے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ....: پہلے اعراب (بدوی) منافقین کا ذکر فرمایا، پھر اعراب میں سے مخلصین کا تذکرہ کیا۔ ان کے بعد سابقین مہاجرین و انصار اور ان کے پیچھے آنے والے صاحب احسان لوگوں کو خوش خبری دی اور ان کے لیے بلند مراتب کا بیان فرمایا (ان کا تذکرہ سورۂ جمعہ کی ابتدائی آیات میں بھی فرمایا ہے) اب ان ضمنی مباحث کے بعد پھر منافقین کے ایک گروہ کا ذکر فرمایا جو مدینہ اور اس کے ماحول میں رہتے ہوئے اپنے نفاق میں ’’مَرَدُوْا ‘‘ اتنے مشاق اور ماہر ہو گئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تیز ترین فراست اور قوی ترین اندازے کے باوجود ان سب کو معین طور پر نہیں پہچان سکے، گو بعض کو ان کے لہجے اور دوسری علامات سے یا اللہ تعالیٰ کی نشان دہی سے پہچانتے ہوں۔ دیکھیے سورۂ محمد (۳۰) لہٰذا جن روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض منافقین کے نام بھی حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بتا دیے تھے وہ اس آیت کے منافی نہیں، کیونکہ یہاں یہ کہا گیا ہے کہ آپ ان تمام کو نہیں جانتے، گویا آپ بعض منافقین کو جانتے تھے اور بعض کو نہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ سب کو جانتا ہے، اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کے غلط دعویٰ کی حقیقت بھی واضح ہو رہی ہے۔ سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَيْنِ: ایک تو دنیا میں غم و اندوہ اور فکر مندی کا عذاب، جس میں منافقین ہمیشہ مبتلا رہتے ہیں، فرمایا : ﴿ يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ﴾ [ المنافقون : ۴ ]کہ وہ ہر لمحہ اپنے آپ کو خطرہ میں محسوس کرتے ہیں، ہر بلند آواز کو اپنے خلاف گمان کرتے ہیں اور پھر یہ رسوائی بھی کہ کفار اور مسلمانوں میں سے انھیں اپنا سمجھنے کے لیے کوئی تیار نہ تھا اور مرنے کے بعد قبر کے عذاب کو دوسرا عذاب فرمایا۔ یا ’’مَرَّتَيْنِ ‘‘سے مراد موت کے وقت فرشتوں کی مار ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ يَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَ اَدْبَارَهُمْ﴾ [ محمد : ۲۷ ] ’’وہ ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پر مارتے ہوں گے۔‘‘ پھر قبر کا عذاب، اس کے بعد ’’عَذَابٍ عَظِيْمٍ ‘‘ سے مراد جہنم کا عذاب ہے۔ ’’مَرَّتَيْنِ ‘‘ کا معنی ’’بار بار‘‘ بھی آتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ اِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّ هُوَ حَسِيْرٌ ﴾ [ الملک : ۴ ] ’’پھر بار بار نگاہ لوٹا، نظر ناکام ہو کر تیری طرف پلٹ آئے گی اور وہ تھکی ہوئی ہو گی۔‘‘ یعنی دنیا میں مال و اولاد، پریشانیوں اور ذلتوں کے ذریعے سے، پھر موت کے وقت، پھر قبر کے اندر بار بار عذاب دے کر آخر کار جہنم میں پہنچا دیں گے۔ یہ معنی بہت جامع ہے ۔ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ: شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’مَرَّتَيْنِ ‘‘ یعنی دنیا میں تکلیف پر تکلیف پائیں گے، پھر آخرت میں پکڑے جائیں گے۔‘‘ (موضح)