يَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ ۖ فَإِن تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَرْضَىٰ عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ
وہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم لوگ ان سے خوش ہوجاؤ، پس اگر تم ان سے خوش ہوجاؤ گے تو بیشک اللہ ظالم لوگوں سے خوش نہیں ہوگا۔
يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ....: یعنی ان کے قسمیں کھانے اور حیلے بہانے کرنے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ تم ان سے درگزر کرو اور چشم پوشی سے کام لو اور پھر یہ چاہتے ہیں کہ ان سے راضی بھی ہو جاؤ، اگر تم ان کی باتوں سے متاثر ہو کر راضی ہو بھی جاؤ تو اللہ تعالیٰ ان کے فسق کی وجہ سے ان سے کبھی راضی نہیں ہو گا۔ ’’فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يَرْضٰي عَنْهُمْ ‘‘ کے بجائے ﴿ لَا يَرْضٰى عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ ﴾ کہنے میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بیان ہوا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے بھی ان کے فسق کی وجہ سے کسی صورت ان سے راضی ہونا جائز نہیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’جس شخص کے حالات سے معلوم ہوتا ہو کہ وہ منافق ہے، اس کی طرف سے تغافل تو جائز ہے مگر اس سے دوستی اور محبت روا نہیں۔‘‘ (موضح)