لَٰكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ وَأُولَٰئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
لیکن رسول اور ان کے ساتھ اہل ایمان نے اپنے مال اور اپنی جان کے ذریعہ جہاد کیا (67) انہی کے لیے ہر قسم کی بھلائی ہے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں
لٰكِنِ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ....: لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کا حال منافقین جیسا نہیں، ان میں نہ ان کی طرح بزدلی ہے، نہ جہاد سے گریز، نہ مال و جان کی قربانی میں بخل، نہ اللہ اور اس کے رسول سے کفر، نہ نافرمانی، بلکہ وہ اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اپنے اموال اور جانوں کے ساتھ جہاد یعنی اپنی آخری کوشش کرتے ہیں اور ہر حال میں اطاعت کرتے ہیں۔ انھی کے لیے تمام بھلائیاں، یعنی دنیا کی فتوحات و غنائم اور آخرت کے سب سے بلند درجے ہیں۔ دیکھیے سورۂ حجرات (۱۵) اور صف ( ۱۰ تا ۱۲) انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جنت میں پہنچ جانے والا کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہو گا جو پسند کرے کہ دنیا میں واپس آئے، خواہ دنیا کی ہر چیز اسے دے دی جائے، سوائے شہید کے، وہ تمنا کرے گا کہ دنیا کی طرف واپس جائے، پھر دس مرتبہ قتل کیا جائے، اس عزت و کرامت کی وجہ سے جو وہ دیکھے گا۔‘‘ [ بخاری، الجہاد والسیر، باب تمنی المجاہد أن یرجع إلی الدنیا : ۲۸۱۷ ]