سورة التوبہ - آیت 83

فَإِن رَّجَعَكَ اللَّهُ إِلَىٰ طَائِفَةٍ مِّنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُل لَّن تَخْرُجُوا مَعِيَ أَبَدًا وَلَن تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّا ۖ إِنَّكُمْ رَضِيتُم بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

پس اگر اللہ آپ کو (مدینہ میں) ان میں سے ایک جماعت تک پہنچا دے، اور وہ جہاد میں نکلنے کی آپ سے اجازت (63) مانگیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ میرے ساتھ ہرگز نہ نکلو گے، اور میرے ساتھ مل کر کسی دشمن سے ہرگز جنگ نہ کروگے تم لوگوں نے پہلی بار (جنگ تبوک کے موقع سے) بیٹھے رہنے کو پسند کیا تھا، تو اب بھی پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَاِنْ رَّجَعَكَ اللّٰهُ اِلٰى طَآىِٕفَةٍ مِّنْهُمْ: ’’اگر اللہ تجھے ان کے کسی گروہ کی طرف واپس لے آئے۔‘‘ ’’رَجَعَ‘‘ لازم اور متعدی دونوں طرح آتا ہے، یعنی لوٹنا اور لوٹانا، یہاں متعدی کے معنی میں ہے۔ یعنی جو جنگ تبوک کے لیے نہیں نکلے تھے بلکہ گھروں میں بیٹھے رہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو آئندہ انھیں اپنے ساتھ لے جانے اور اپنے ہمراہ لڑانے سے منع فرما دیا، اس لیے کہ ان کا اعتبار اٹھ گیا۔ جب وہ مشکل وقت میں ساتھ نہیں گئے تو آسان وقت میں بھی کیوں جائیں، جیسا کہ سورۂ فتح میں حدیبیہ کے لیے نہ جانے والے اعراب کو خیبر کی فتح میں شرکت سے منع فرما دیا۔ دیکھیے سورۂ فتح (۱۱ تا ۱۵) مگر وہاں ہمیشہ کے لیے منع نہیں فرمایا، جبکہ تبوک سے پیچھے رہنے والے منافقین کو ہمیشہ کے لیے ساتھ لے جانے سے منع فرما دیا۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ جو فرمایا کہ ’’اگر پھر لے جائے تجھے اللہ کسی فرقہ کی طرف‘‘ وہ اس واسطے کہ یہ آیت سفر میں نازل ہوئی۔ یہ لوگ مدینہ میں منافق تھے اور فرقے اس واسطے فرمایا کہ بعض منافق پیچھے مر گئے اور سب بیٹھنے والے منافق نہ تھے، بعض مسلمان بھی تھے، ان کی تقصیر معاف ہوئی۔ (موضح) فَاقْعُدُوْا مَعَ الْخٰلِفِيْنَ: یعنی پہلی مرتبہ کی طرح اب بھی ان لوگوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو جو بے عذر گھروں میں رہ گئے یا معذوروں کے ساتھ بیٹھے رہے، جیسے عورتیں، بچے، بوڑھے، بیمار اور اپاہج وغیرہ۔