قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
آپ کہہ دیجئے کہ ہم تک وہی پہنچے گا جو اللہ نے ہماری قسمت میں لکھ (40) دیا ہے، وہ ہمارا آقا ہے، اور مومنوں کو صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہئے
1۔ قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا: یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر ایمان و یقین کی برکت کا ذکر ہے، سچ ہے : ’’مَنْ عَلِمَ سِرَّ اللّٰهِ فِي الْقَدَرِ هَانَتْ عَلَيْهِ الْمَصَائِبُ ‘‘ ’’جس نے قضا و قدر میں اللہ تعالیٰ کے راز کو پا لیا اس پر مصیبتیں آسان ہو جاتی ہیں۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’کوئی مصیبت نہ زمین میں پہنچتی ہے اور نہ تمھاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں، یقیناً یہ اللہ پر بہت آسان ہے، تاکہ تم نہ اس پر غم کرو جو تمھارے ہاتھ سے نکل جائے اور نہ اس پر پھول جاؤ جو وہ تمھیں عطا فرمائے۔‘‘ [ الحدید : ۲۲، ۲۳ ] 2۔ هُوَ مَوْلٰىنَا....: وہی ہمارا مالک، مددگار اور حمایتی ہے۔ ہم اپنے مالک پر خوش ہیں اور ایمان والوں کو تو بس اللہ ہی پر بھروسا رکھنا لازم ہے، نہ دنیا کے سازوسامان پر اور نہ اس کے سوا کسی اور ذات پر۔ ’’وَ عَلَى اللّٰهِ ‘‘ کے پہلے آنے سے حصر کا مفہوم پیدا ہو گیا اور ’’فَلْيَتَوَكَّلِ‘‘ میں فاء کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان منافقین کے رویے سے پیدا ہونے والی بددلی کا علاج چاہتے ہیں تو ایمان والوں کے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ صرف اللہ پر بھروسا رکھیں اور اس کے سوا کسی کی پروا نہ کریں۔