انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
(مسلمانو ! راہ جہاد میں نکلو (33) ہلکے ہو تب اور بھاری ہو تب، اور اپنے مال و دولت اور اپنی جانوں کے ذریعہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو، اگر تمہارے پاس کچھ علم ہے تو (جان لو کہ) یہی تمہارے لیے بہتر ہے
1۔ اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا....: اللہ تعالیٰ نے تبوک کے لیے نہ نکلنے کی صورت میں دنیا و آخرت میں عذاب الیم کی وعید سنا کر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے سوا کسی کی مدد کا محتاج نہ ہونے کا ذکر فرما کر اب تاکید کے ساتھ تمام مسلمانوں کو جنگ کے لیے نکلنے کا حکم دیا، اسے ’’نفیر عام‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس حکم کے بعد ہر مسلمان پر نکلنا فرض ہو جاتا ہے، ماں باپ یا کسی کے اذن (اجازت) کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ’’ہلکے اور بوجھل‘‘ الفاظ عام ہیں، اس لیے اس میں سب شامل ہیں، یعنی طبیعت چاہتی ہے یا نہیں، خوش حال ہو یا تنگ دست، مجرد ہو یا عیال دار، جوان ہو یا بوڑھے، ہتھیار بند ہو یا بے ہتھیار، ہر حال میں جہاد کے لیے نکلو۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی : ﴿اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا ﴾ تو کہنے لگے : ’’میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم بوڑھوں اور جوانوں سب کو نکلنے کے لیے کہا ہے۔‘‘ ان کی اولاد نے کہا : ’’اباجان! آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جنگیں لڑیں، حتیٰ کہ وہ فوت ہو گئے اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ بھی تو ہم آپ کی جگہ جنگ کریں گے، مگر وہ نہ مانے، چنانچہ انھوں نے سمندر کا سفر اختیار کیا، یہاں تک کہ فوت ہو گئے۔ تو سات دن تک انھیں دفن کرنے کے لیے کوئی جزیرہ نہ ملا اور اس دوران میں ان کے جسم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ [ مستدرک حاکم :3؍353، ح : ۵۵۰۸، صححہ الحاکم و سکت عنہ الذھبی ] اسی طرح مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ بڑھاپے اور بھاری جسم کے باوجود نکلے، ایک آدمی نے ان سے کہا، کاش! آپ اس سال جنگ کے لیے نہ جائیں تو انھوں نے کہا : ’’سورۂ بحوث (توبہ) ہمیں بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا﴾ ’’نکلو، ہلکے ہو یا بھاری‘‘ اور میں اپنے آپ کو ہلکا ہی پاتا ہوں۔‘‘ [ السنن الکبرٰی للبیہقی :9؍21، ح : ۱۸۲۵۶] ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر میں شریک ہوئے، پھر ایک سال کے سوا کبھی مسلمانوں کی کسی جنگ سے پیچھے نہیں رہے۔ تاریخ کی کتابوں کے مطابق نوے سال کی عمر میں قسطنطنیہ جانے والے لشکر میں آپ شریک ہوئے، ان کے امیر یزید بن معاویہ تھے، بیمار ہوئے تو یزید ان کی بیمار پرسی کے لیے آئے۔ پوچھا : ’’کوئی خواہش ہو تو بتائیں؟‘‘ فرمایا : ’’میری خواہش یہ ہے کہ جب میں فوت ہو جاؤں تو سوار ہو کر دشمن کی سرزمین میں جہاں تک آگے جا سکو جاؤ، جب اس سے آگے بڑھنے کی گنجائش نہ رہے تو مجھے وہاں دفن کر دو، پھر واپس آجاؤ۔‘‘ ابوایوب رضی اللہ عنہ یہ آیت پڑھا کرتے : ﴿ اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا ﴾ اور فرماتے : ’’تو میں یا تو ہلکا ہوں گا یا بوجھل۔‘‘ یعنی ہر حال میں نکلنے کا حکم ہے۔ [مستدرک حاکم :3؍458، ح : ۵۹۳۰، سکت عنہ الذھبی] 2۔ جہاد کے لیے نکلنا کسی شخص پر کب ہر حال میں فرض ہوتا ہے اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت (۲۱۶) کے حواشی۔