سورة التوبہ - آیت 30

وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور یہود نے کہا کہ عزیر اللہ کے بیٹے (24) ہیں اور نصاری نے کہا کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں، یہ ان کے منہ کی بکواس ہے، ان لوگوں کے قول کی مشابہت اختیار کرتے ہیں جنہوں نے ان سے پہلے کفر کیا تھا، اللہ انہیں ہلاک کردے، کس طرح حق سے پھرجا رہے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ قَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُ اِبْنُ اللّٰهِ....: پچھلی آیت میں اہل کتاب کے ساتھ قتال کی چار وجوہ بیان فرمائی تھیں، اب ان میں سے بعض کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ فرمایا کہ یہود نے عزیر علیہ السلام کو اور نصاریٰ نے مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیا، جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ (1) اَللّٰهُ الصَّمَدُ (2) لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُوْلَدْ (3) وَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾ [ الإخلاص ] ’’کہہ دے اللہ ایک ہے، اللہ ہی بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا اور نہ کبھی کوئی اس کے برابر کا ہے۔‘‘ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کا بیٹا ماننے کی صورت میں اس کی بیوی بھی ماننا پڑے گی اور خاوند، بیوی، باپ، بیٹا ایک ہی جنس سے ہوتے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ ان سب چیزوں سے پاک ہے۔ الغرض ان سے قتال کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کے متعلق ان کا عقیدہ سراسر اللہ تعالیٰ کی توہین اور متعدد معبودوں کو ماننا ہے، تثلیث (تین خدا ماننا) ہو یا حلول (کسی انسان یا مخلوق میں اللہ کا اتر آنا) یا اتحاد کسی انسان کا خدا بن جانا، ان سب کو قرآن نے کفر قرار دیا۔ دیکھیے سورۂ مائدہ (۷۲، ۷۳) پھر جو شخص ہر چیز ہی کو اللہ تعالیٰ قرار دے، ’’ ہر میں ہر‘‘ کا نعرہ لگائے، وحدت الوجود کو معرفت قرار دے اس کے کفر میں کیا شک ہے؟ اسی طرح اب اگر کوئی مسلمان بھی یہ عقیدہ رکھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اللہ تعالیٰ ہی تھے، یا اس کے نور کا ٹکڑا تھے، یا اولیاء میں اللہ تعالیٰ اتر آتا ہے، یا ترقی کر کے ولی بھی اللہ تعالیٰ بن جاتا ہے اور اس کے اختیارات کا مالک بن جاتا ہے، اس لیے وہ ’’أَنَا الْحَقُّ ‘‘ (میں ہی حق یعنی اللہ ہوں) کا نعرہ لگاتا ہے اور ’’سُبْحَانِيْ مَا اَعْظَمَ شَانِيْ‘‘ (میں پاک ہوں، میری شان کتنی بڑی ہے) کہتا ہے، تو بے شک یہ مسلمان کہلاتا رہے حقیقت میں یہود و نصاریٰ میں اور اس میں کوئی فرق نہیں اور ہندوؤں کے کروڑوں خداؤں کے عقیدے اور اس کے عقیدے میں بھی کوئی فرق نہیں۔ اس خبیث عقیدے سے تو تمام دین، تمام انبیاء و رسل اور ان کے احکام ہی بے کار ٹھہرتے ہیں۔ ایسے عقیدے والا شخص اپنے آپ کو تصوف یا معرفت یا طریقت کے پردوں میں لاکھ چھپائے، حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کی تمام شریعتوں، رسولوں، کتابوں اور ان کے احکام کا منکر ہے، جس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے تقدس کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ 2۔ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ: یعنی نہ عقل سے اس کی کوئی دلیل پیش کی جا سکتی ہے نہ نقل سے، محض منہ کی بے کار بات ہے، جیسے خواہ مخواہ کوئی شخص مہمل اور بے معنی باتیں کرتا رہے۔ يُضَاهِـُٔوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ: یعنی ( یہ لوگ) اہل کتاب ہو کر بھی مشرکوں کی ریس کرنے لگے۔ (موضح) اور پہلی مشرک اور کافر قوموں کی طرح گمراہ ہو گئے۔ صاحب المنار فرماتے ہیں کہ شرق و غرب کے قدیم بت پرستوں کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن اللہ ہونے، حلول اور تثلیث ( اور متعدد معبودوں) کا عقیدہ ہند کے برہمنوں میں معروف تھا (اور اب بھی ہے)، اسی طرح چین، جاپان، قدیم مصریوں اور قدیم ایرانیوں میں بھی یہ عقائد مشہور و معروف تھے۔ اہل کتاب بھی ان کفار کی ریس کرنے لگے اور اب بعض مسلمان بھی ان کے نقش قدم پر چل پڑے۔ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ: یعنی یہ لوگ اس کے حق دار ہیں کہ ان کے حق میں یہ بددعا کی جائے، ورنہ اللہ تعالیٰ کو دعا یا بددعا کی کیا ضرورت ہے ؟ وہ تو خود جو چاہے کر سکتا ہے۔