أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ لَا يَسْتَوُونَ عِندَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی (16) پلانے والے اور مسجد حرام کو آباد کرنے والے کو اس آدمی کے برابر بنا دیا ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا، یہ لوگ اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہیں، اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ہے
اَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَآجِّ....: اس آیت کے مخاطب مشرکین اور مسلمان دونوں ہیں، کیونکہ مشرکین کعبہ کی خدمت، تولیت اور حاجیوں کو شربت اور پانی پلانے پر بہت فخر کرتے تھے اور بعض مسلمان بھی اس کو سب سے اعلیٰ عمل سمجھتے تھے۔ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس آپ کے اصحاب کی ایک جماعت میں بیٹھا ہوا تھا، تو ایک آدمی نے کہا کہ اسلام لانے کے بعد حاجیوں کو پانی پلانے کے علاوہ میں کوئی کام نہ کروں تو مجھے کچھ پروا نہیں۔ دوسرے نے کہا، بلکہ مسجد حرام کی آباد کاری ( افضل ہے)۔ ایک اور نے کہا، بلکہ جہاد فی سبیل اللہ اس سے بہتر ہے جو تم کہہ رہے ہو۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں ڈانٹا اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس آوازیں مت بلند کرو، یہ جمعہ کے دن کی بات ہے، لیکن جب تم جمعہ پڑھ چکو گے تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا اور تمھارے اس جھگڑے کا فیصلہ کروا لوں گا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : ﴿اَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ [ مسلم، الإمارۃ، باب فضل الشھادۃ فی سبیل اللّٰہ تعالٰی : ۱۸۷۹] یعنی یہ کام گو فضیلت کے ہیں مگر اللہ اور یوم آخرت پر ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتے اور پھر یہ ایمان کے بغیر مقبول بھی نہیں۔ ﴿وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ ﴾ شرک سب سے بڑا ظلم ہے، پھر جو اس پر اصرار کرے اس ظالم کو سیدھی راہ کیسے نصیب ہو ؟