وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ
اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے بعض، بعض کے دوست (63) ہیں، اگر تم ایسا نہیں کرو گے (64) (یعنی مسلمانوں سے دوستی اور کافروں سے ترک تعلقات) تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد برپا ہوجائے گا
1۔ وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ: یعنی کافر آپس میں خواہ جتنی بھی دشمنی رکھتے ہوں تمھارے خلاف سب کے سب ایک دوسرے کے مدد گار اور حمایتی ہیں۔ کافر، کافر ہی کا دوست ہے، مسلمان کا نہیں، اس لیے مسلمان اور کافر کا آپس میں موالات (دوستی، حمایت اور مدد) کا رشتہ کسی صورت نہیں ہو سکتا۔ 2۔ اِلَّا تَفْعَلُوْهُ: یعنی اگر تم آپس میں محبت، حمایت اور نصرت نہیں کرو گے اور کفار سے ترک موالات نہیں کرو گے، یعنی ان کے ساتھ باہمی محبت، تعاون اور ایک دوسرے کا وارث بننا نہیں چھوڑو گے اور قطع تعلق نہیں کرو گے تو زمین میں بڑا فتنہ اور بہت بڑا فساد ہو گا۔ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مسلمان کافر کا وارث نہیں بنتا، نہ کافر مسلمان کا وارث بنتا ہے۔‘‘ [ بخاری، الفرائض، باب لا یرث المسلم الکافر....: ۶۷۶۴۔ مسلم : ۱۶۱۴ ] 3۔ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْاَرْضِ وَ فَسَادٌ كَبِيْرٌ: یعنی مسلمانوں کے راز افشا ہوتے رہیں گے، آئے دن جنگ رہے گی، کفار کے خلاف مسلمانوں کے یک جان نہ ہونے سے اسلام اور مسلمان کمزور ہوں گے، ان کا رعب جاتا رہے گا، کفار غالب آئیں گے، تو ان کے ساتھ رہنے والے مسلمان مجبوراً مرتد ہو جائیں گے، یا ان کے رسوم و رواج، عقائد اور اعمال قبول کریں گے، یا ان پر خاموش رہیں گے، یا شدید آزمائش کا شکار ہوں گے۔ غرض کفار کے غلبے اور ان کے ساتھ رہ کر ان کی غلامی پر قناعت یا ان سے دوستی کی صورت میں اللہ کی زمین پر امن کسی صورت قائم نہیں رہ سکتا، بلکہ ہر طرف فتنہ و فساد، جنگ و جدل، شرک و کفر، بے حیائی اور بدکاری ہی کا دور دورہ ہو گا۔