يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ۚ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ
اے میرے نبی ! آپ مومنوں کو کافروں سے جنگ پر اکسائیے (55) اگر تمہارے بیس صبر کرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آجائیں گے، اور اگر تمہارے سو ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب آجائیں گے، اس لییے کہ وہ بے سمجھ لوگ ہیں (جذبہ جہاد کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں کرسکتے ہیں)
1۔ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَى الْقِتَالِ....: ’’تحریض‘‘ کا معنی خوب رغبت دلا کر کسی کام پر ابھار دینا ہے۔ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ قرآن مجید میں جہاد کا ذکر تقریباً سات پاروں کے برابر بنتا ہے۔ کتب احادیث میں کتاب الجہاد اس کے فضائل سے بھری ہوئی ہیں۔ یہاں بیس مسلمانوں کو کفار کے دو سو آدمیوں پر غالب آنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ مگر یہ حکم خبر کی صورت میں ہے، کیونکہ یہ بات معروف ہے کہ حکم بہت تاکید کے ساتھ دینا ہو تو وہ خبر کے الفاظ میں دیا جاتا ہے، مثلاً یہ کہنا ہو ’’سب لوگ نماز کے لیے مسجد میں جائیں‘‘ تو کہا جاتا ہے ’’سب لوگ مسجد میں جائیں گے۔‘‘ یہاں بیس مسلمانوں کو کفار کے دو سو آدمیوں پر غالب آنے کا حکم دیا جا رہا ہے مگر خبر کے الفاظ میں کہ اگر تم میں سے بیس صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے۔ مراد یہ ہے کہ غالب آئیں۔ اس کی دلیل اگلی آیت ہے کہ اب اللہ نے تم سے تخفیف کر دی ہے، سو اگر تم میں سے ایک سو صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے۔ مراد یہ ہے کہ دو سو پر غالب آئیں، ظاہر ہے کہ تخفیف امر (حکم) میں ہوتی ہے، خبر میں نہیں۔ ان آیات میں خوش خبری بھی ہے مگر ایمان اور صبر کی شرط کے ساتھ۔ 2۔ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ: یعنی سمجھ سے کام نہیں لیتے، نہ ثواب یا شہادت کے حصول کی نیت ہوتی ہے، نہ عذاب سے بچنے کی، نہ ہی وہ کسی پائدار اور دائمی مقصد کے لیے لڑتے ہیں، اس لیے ان میں وہ جذبہ اور اخلاقی قوت موجود نہیں ہوتی جو انھیں میدانِ جنگ میں ڈٹے رہنے کا حوصلہ عطا کرے، لہٰذا یہ ان سرفروش مجاہدین کا کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں جن کی بڑی تمنا شہادت کی فضیلت حاصل کرنا ہے؟ 3۔ بیس کے دو سو پر غالب آنے کے بعد سو کے ہزار پر غالب آنے کے بیان میں یہ حکمت ہے کہ لشکر چھوٹا ہو یا بڑا، ہر ایک کو یہ حکم ہے اور ہر ایک سے نصرت کا وعدہ ہے۔