سورة البقرة - آیت 114

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اس سے بڑا ظالم (١٦٦) کون ہوگا جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کا نام لیے جانے سے روکتا ہے، اور اس کی بربادی کے لیے کوشاں رہتا ہے، ان کے لیے مناسب یہی تھا کہ ان مساجد میں اللہ سے ڈرتے ہوئے (اور خشوع و خضوع کے ساتھ) داخل ہوتے، ان کے لیے دنیا میں رسوائی (١٦٧)، اور آخرت میں ان کے لیے عذاب عظیم ہوگا

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ اپنے گروہ کو حق پر اور اپنے سوا سب کو غلط قرار دینے والے یہ سب لوگ غور کریں کہ ظلم کے ناجائز ہونے پر تو سب کا اتفاق ہے، پھر اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ کی مسجدوں سے منع کرے کہ ان میں اس کا نام لیا جائے اور انھیں ویران کرنے کی کوشش کرے۔ یہ کام مشرکین مکہ نے کیا کہ مسلمانوں کو پہلے مکہ سے نکالا، پھر ان کا مکہ میں داخلہ حتیٰ کہ حج و عمرہ کے لیے آنا بند کردیا۔ ان سے پہلے نصاریٰ کا ٹائٹس کے زمانے میں بیت المقدس پر قبضہ ہوا تو انھوں نے یہودیوں کا داخلہ بیت المقدس میں بند کر دیا، یہ کیسی حق پرستی ہے؟ اِلَّا خَآئِفِيْنَ: یعنی ایسے ظالم لوگوں کا اللہ کی مساجد کا متولی ہونا تو درکنار ان کا تو داخلہ بھی ڈرتے ہوئے ہونا چاہیے کہ انھوں نے کوئی شرارت کی تو سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ ان کے لیے دنیا ہی میں ایک رسوائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سچ ثابت ہوا، یہودو نصاریٰ اور مشرکین تینوں نے اپنے کیے کی سزا پائی، کعبہ اور بیت المقدس کی تولیت مسلمانوں کے قبضے میں آ گئی۔ چونکہ مسجدیں اللہ کی ہیں اور حق یہ ہے کہ ان میں صرف اللہ کا نام لیا جائے، اس لیے تمام مشرکین کو مسجد حرام کے قریب آنے سے روک دیا گیا، خواہ وہ بت پرست ہوں یا عزیر و مسیح پرست، کیونکہ وہ اکیلے اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ اب مسلمانوں میں وہی پہلی قوموں والے مشرکانہ عقائد و اعمال پھیل گئے اور وہ بدعمل ہو کر جہاد چھوڑ بیٹھے، تو بیت المقدس پھر ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو دوبارہ توحید و سنت اور جہاد فی سبیل اللہ پر گامزن فرمائے اور بیت المقدس کی تولیت کا شرف عطا فرمائے۔