وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور جان لو کہ تمہیں جو کچھ بھی مال غنیمت (35) ہاتھ آئے گا، اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے اور (رسول کے) رشتہ داروں، اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہوگا، اگر تمہارا ایمان (36) اللہ اور اس نصرت و تائید پر ہے جو ہم نے اپنے بندے پر اس دن اتارا تھا جب حق باطل سے جدا ہوگیا، جب دونوں فوجوں کی مڈ بھیڑ ہوگئی، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
1۔ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ: غنیمت وہ مال ہے جو کفار سے جنگ کی صورت میں حاصل ہو، اگر ان سے جنگ کے بغیر کوئی مال حاصل ہو تو اسے فے کہتے ہیں، اس کا ذکر سورۂ حشر (۶ تا ۹) میں ہے، مثلاً کفار خود ہی ہتھیار پھینک دیں، یا صلح کی صورت میں ان سے جزیہ وصول ہو، یا زمین کا خراج وغیرہ ہو۔ غنیمت اور فے بعض اوقات ایک دوسرے کے معنی میں بھی آ جاتے ہیں۔ ’’غَنَمٌ‘‘ کا معنی بھیڑ بکریاں ہے، جو عرب میں اکثر جنگ کے بعد غالب فریق کے قبضے میں آتی تھیں۔ بعد میں قبضے میں آنے والی ہر چیز کو غنیمت کہنے لگے۔ 2۔ سورت کے شروع میں ’’انفال‘‘ کو اللہ اور اس کے رسول کی ملکیت قرار دیا گیا تھا، اب غنیمت کی تقسیم کا طریقہ بیان ہوتا ہے۔ ایک مناسبت یہ ہے کہ اس سے پہلے ﴿وَ قَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ﴾ میں لڑائی کا حکم ہے جس کے نتیجے میں عموماً مالِ غنیمت حاصل ہوتا ہے، اس لیے اب اس کے خرچ کی جگہیں بیان فرمائیں۔ 3۔ مِنْ شَيْءٍ: اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی چیز بڑی سے بڑی ہو یا چھوٹی سے چھوٹی، کوئی شخص اپنے پاس نہیں رکھ سکتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق سوئی دھاگا حتیٰ کہ اونٹ کی اون کی گچھی تک جمع کروانا ہو گی، اگر رکھے گا تو یہ غلول (خیانت) شمار ہو گا، جس کی وعید سورۂ آل عمران (۱۶۱) میں ہے۔ 4۔ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ....: مطلب یہ ہے کہ کل غنیمت کے پانچ حصے کیے جائیں گے، چار حصے ان لوگوں کو ملیں گے جنھوں نے جنگ میں شرکت کی، ان میں بھی پیادے کو ایک حصہ اور سوار کو تین حصے ملیں گے، ایک اس کا اپنا اور دو حصے گھوڑے کے اور خمس ( پانچواں حصہ) ان اغراض کے لیے الگ کر لیا جائے گا جن کا آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ یہ بھی امت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر احسان ہے، ورنہ پہلی امتوں میں تو اموال غنیمت حلال ہی نہ تھے بلکہ انھیں جلا دیا جاتا تھا۔ یہاں اللہ تعالیٰ کا نام بطور برکت و تمہید آیا ہے، کیونکہ سب مال اللہ ہی کا ہے۔ اصل میں خمس کے مصرف پانچ ہیں، ایک حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اور اپنی بیویوں کی ضروریات کے بعد عام مسلمانوں کی مصلحت میں خرچ کرتے تھے، مثلاً مجاہدین کے لیے اسلحہ اور سواریاں وغیرہ۔ آپ کے بعد خلیفۂ وقت جہاں مناسب سمجھے خرچ کرنے میں آپ کا جانشین ہو گا۔ خمس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے مال غنیمت میں سے کوئی ایک چیز مثلاً کوئی ہتھیار یا گھوڑا یا لونڈی اپنے لیے رکھنے کا اختیار تھا، اسے ’’صَفِيٌّ‘‘ کہتے ہیں۔ ’’وَ لِذِي الْقُرْبٰى ‘‘ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار ہیں، آپ کے جد اعلیٰ عبد مناف کی اولاد چار قبیلے تھے، بنو ہاشم، بنو مطلب، بنو عبد شمس اور بنو نوفل۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو ہاشم میں سے تھے، مگر آپ نے ’’ذَوِي الْقُرْبٰي‘‘ میں سے پہلے دو قبیلوں کو خمس میں سے حصہ دیا، بعد والے دو کو نہیں دیا اور ان کے پوچھنے پر بتایا کہ بنو مطلب اسلام لانے سے پہلے بھی بنو ہاشم کے ساتھی رہے ہیں، جبکہ آخری دونوں قبیلے اس وقت مخالفت میں سر گرم رہتے تھے۔ ’’الْيَتٰمٰى‘‘ وہ نا بالغ بچے جن کے باپ فوت ہو چکے ہوں۔ ’’ الْمَسٰكِيْنِ ‘‘ وہ ضرورت مند جن کی آمدنی ضرورت سے کم ہو۔ ’’ابْنِ السَّبِيْلِ ‘‘ راہ گیر مسافر۔ اس خمس کا پانچ حصوں میں تقسیم کا طریقہ کیا ہو گا؟ کیا سب کو برابر دیا جائے گا، یا حسب ضرورت خرچ کیا جائے گا؟ امام مالک اور اکثر سلف رحمہم اللہ کا خیال ہے کہ امام ( خلیفۂ اسلام) کو اختیار ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعی مصلحت، مثلاً جہاد کی تیاری، اسلحہ کی خریداری وغیرہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے جس طرح چاہے اسے تقسیم یا خرچ کرے۔ اسی پر خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم کا عمل رہا ہے۔ (قرطبی) نسائی کی حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے، عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ کی کوہان سے دو انگلیوں میں تھوڑی سی پشم پکڑی، پھر فرمایا : ’’میرے لیے فے (غنیمت) میں سے کچھ نہیں، حتیٰ کہ یہ ( پشم) بھی نہیں، مگر پانچواں حصہ اور وہ پانچواں حصہ بھی تمھی میں لوٹایا جائے گا۔‘‘ [ نسائی،أول کتاب قسم الفیٔ : ۴۱۴۴، و صححہ الألبانی ] پھر ضروری نہیں کہ پانچ حصوں میں برابر تقسیم کرے، جہاں زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت ہو زیادہ کر سکتا ہے۔ حافظ ابن تیمیہ اور ابن کثیر رحمھما اللہ نے اس کو سب سے صحیح قول قرار دیا ہے۔ 5۔ وَ مَا اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا: یعنی جو فرشتے، آیات و معجزات اور نصرتِ الٰہی بدر میں اللہ تعالیٰ نے اتارے۔ ’’ عَبْدِنَا ‘‘ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا بندہ کہہ کر خاص اعزاز بخشا، جیسا کہ ﴿سُبْحٰنَ الَّذِيْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ﴾ [ بنی إسرائیل : ۱ ] میں اور ﴿وَ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا﴾ [ البقرۃ : ۲۳ ] میں فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا یہ اعزاز بہت عزیز تھا، آپ کی مشہور دعا ہے : (( اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ نَاصِيَتِيْ بِيَدِكَ )) [ أحمد :1؍391 ح : ۳۷۱۱، عن ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ ] 6۔ يَوْمَ الْفُرْقَانِ: ’’الْفُرْقَانِ ‘‘ واضح فیصلہ، یعنی بدر کے دن جس میں حق اور باطل کا فیصلہ ہوا، حق کو فتح ہوئی اور باطل مغلوب ہوا۔ (ابن کثیر) حق و باطل کے درمیان یہ پہلی باقاعدہ جنگ تھی جو ۱۷ رمضان بروز جمعہ ( بروایت ابن جریر عن علی) واقع ہوئی۔