سورة الانفال - آیت 34

وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوا أَوْلِيَاءَهُ ۚ إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اللہ انہیں عذاب (28) کیوں نہیں دے گا، اور حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کو مسجد حرام سے روکتے ہیں، جبکہ وہ اس کے متولی نہیں ہیں، اس کی ولایت کے حقدار تو صرف متقی لوگ ہیں، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَا لَهُمْ اَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ....: اس آیت میں ان کے عذاب کا مستحق ہونے کی چند وجہیں بیان کی ہیں، ایک تویہ کہ انھوں نے مسلمانوں کے مسجد حرام میں داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ دوسری یہ کہ وہ زبردستی مسجد حرام کے مالک اور متولی بنے بیٹھے ہیں، حالانکہ کعبہ کی تولیت صرف موحدین متقین کا حق ہے، مشرکین کا نہیں۔ دیکھیے سورهٔ توبہ (۱۷، ۱۸) تیسری یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس کی شان کے لائق اور اس کے بتائے ہوئے طریقے سے کرنے کے بجائے تالیاں پیٹ کر اور سیٹیاں بجا کر قوالی کے ذریعے سے کرتے ہیں۔ اس لیے ان پر عذاب کیوں نہ آئے، عذاب آئے گا اور ضرور آئے گا۔ پچھلی آیت میں جس عذاب کی نفی کی تھی وہ تھا جس سے قوموں کا نام و نشان مٹ جاتا تھا، یعنی عذاب استیصال۔ اس آیت میں اس عذاب کا ذکر ہے جو قحط، خوف اور جنگ کی صورت میں عبرت کے لیے ان پر مسلط ہوا، دیکھیے سورۂ نحل (۱۱۲، ۱۱۳)، سورۂ سجدہ (۲۱) اور سورۂ دخان (۱۰ تا ۱۶) یہ عذاب جنگ بدر، قحط، بھوک، خوف اور آخر میں فتح مکہ کی صورت میں اہل مکہ پر مسلط ہوا۔ جس سے ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے، یا قید ہوئے اور جو مرنے سے بچ گئے وہ آخر کار اسلام میں داخل ہو گئے۔