فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ ۚ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ ۚ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَاءً حَسَنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
پس تم لوگوں نے انہیں قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا (اور اے میرے رسول !) آپ نے ان کی طرف مٹی نہیں پھینکی (11) بلکہ اللہ نے پھینکی تھی اور تاکہ اللہ مومنوں کو اپنی طرف سے اچھا انعام دے، بے شک اللہ خوب سننے والا، خوب جاننے والا ہے
1۔ فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ....: صاحب کشاف نے فرمایا، یہاں حرف ’’فاء‘‘ یعنی ’’پس ‘‘ ایک شرط کا جواب ہے کہ اگر تم فخر کرو کہ ہم نے یہ کیا وہ کیا تو درست نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم نے انھیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انھیں قتل کیا، کیونکہ نہ تمھاری تعداد زیادہ تھی اور نہ تمھارے پاس اتنا سروسامان تھا کہ تم کافروں کے ہر طرح سے مسلح اور عظیم لشکر کو شکست دے سکتے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہ اس لیے فرمایا کہ مسلمان یہ سمجھیں کہ فتح ہماری قوت سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہے، لہٰذا ان کو چاہیے کہ کسی بات میں اپنا دخل نہ دیا کریں۔ (موضح) 2۔ وَ مَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ: یعنی وہ مٹھی جو آپ نے پھینکی، درحقیقت آپ نے نہیں پھینکی، کیونکہ اگر وہ آپ کی پھینکی ہوئی ہوتی تو اتنی دور ہی جا سکتی جتنی ایک آدمی کے پھینکنے سے جا سکتی ہے، اس کو اتنا بڑھانا اور ٹھیک نشانے پر پہنچانا کہ ہر مشرک کی آنکھ میں پہنچ جائے صرف اللہ تعالیٰ کا کام تھا۔ یہ اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جو حافظ ابن کثیر نے علی بن طلحہ عن ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حسن سند سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا : ’’یا رب! اگر یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو پھر زمین میں تیری عبادت کبھی نہیں ہوگی۔‘‘ تو جبریل علیہ السلام نے کہا : ’’آپ مٹی کی ایک مٹھی لیں اور ان کے چہروں پر پھینکیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی کی ایک مٹھی پکڑی اور ان کے چہروں کی طرف پھینکی تو جو بھی مشرک تھا اس کی آنکھوں، نتھنوں اور منہ میں اس مٹھی کا کچھ حصہ جا پہنچا تو وہ پیٹھ دے کر بھاگ گئے۔ گویا مٹی پھینکی آپ نے لیکن اس کو نشانے تک اللہ نے پہنچایا، ابتدائی کام پھینکنا آپ کا تھا اور انتہا نشانے پر لگانا اللہ کا فعل تھا۔ اگر درحقیقت خود آپ ہی اللہ تعالیٰ تھے تو دونوں فعل آپ کے ہوئے، آپ سے ایک فعل (نشانے پر لگانے) کی نفی کیوں کی گئی؟ 3۔ بعض لوگ ’’مَا رَمَيْتَ ‘‘ سے ثابت کرتے ہیں کہ درحقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی پروردگار عالم تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے پھینکنے کو اپنا پھینکنا قرار دیا، مگر اس صورت میں تو لازم آئے گا کہ ’’وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ ‘‘ سے بدری مسلمان بھی خود اللہ تعالیٰ ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کفار کے قتل کرنے کو اپنا کام قرار دیا ہے۔ مگر یہ نہایت کفریہ بات ہے جس سے دین اسلام کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے۔ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کچھ بدر ہی میں شہید ہوئے، کچھ بعد میں فوت یا شہید ہوئے، خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زہر کے اثر سے وفات پائی اور اللہ تعالیٰ تو ہمیشہ زندہ حی و قیوم ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی ہستی تو ایک ہی ہے، فرمایا : ﴿ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ﴾ ان لوگوں کا رب عجیب ہے، جو ایک نہیں بلکہ بڑی تعداد میں ہے اور وہ شہید ہوتا اور مرتا بھی ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ہندوؤں کی طرح ہر چیز کو رب مانتے ہیں اور اسے وحدت الوجود کہتے ہیں۔ جس کا نتیجہ قرآن و حدیث کے احکام کا خاتمہ اور اسلام و کفر اور جنت و دوزخ سب کے وجود کا انکار ہے۔ [ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ] 4۔ وَ لِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِيْنَ مِنْهُ بَلَآءً حَسَنًا: ’’لِيُبْلِيَ ‘‘ یہ ’’بَلَاءٌ‘‘ سے مشتق ہے، از باب افعال، آزمانا، جو سختی اور مصیبت کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور نعمت عطا فرما کر بھی، اس لیے ’’بَلَاءٌ‘‘ کا معنی مصیبت بھی ہے اور انعام بھی۔ یہاں مراد انعام یا احسان اور عطا کے ساتھ آزمانا ہے۔ یعنی باوجود یہ کہ مسلمانوں کا سامان اور لشکر کافروں کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں فتح دی، تاکہ وہ اس نعمت کو پہچانیں اور اس کا شکر بجا لائیں۔