وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
بہت سے اہل کتاب چاہتے ہیں کہ کاش وہ تم لوگوں کو ایمان لے آنے کے بعد کفر کی طرف لوٹا دیں (١٦٢) وہ لوگ ایسا محض حسد کی وجہ سے، اور ان پر حق واضح ہوجانے کے بعد کر رہے ہیں، پس تم لوگ عفو و درگذر سے کام لو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے
1۔ كَثِيْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ....: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے اہل کتاب شامل ہیں اور بعد میں آنے والے تمام زمانوں کے یہود و نصاریٰ بھی، جیسا کہ ہمارے دور میں ان کی طرف سے علم و تحقیق کے نام پر اسلام کے عقائد و احکام کے خلاف پروپیگنڈا ہو رہا ہے اور ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ مسلمان اگر یہودی یا نصرانی نہ بنیں تو کم از کم اپنے دین سے ضرور بدگمان ہو جائیں۔ 2۔ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ....: حق کو پہچاننے کے باوجود ان کی یہ خواہش محض حسد کی وجہ سے ہے اور حسد بھی کسی دینی جذبے کی وجہ سے نہیں ، بلکہ ان کے دلوں کے بغض و عناد کی وجہ سے ہے۔ اس سے حسد کی قباحت ظاہر ہوئی کہ خود بھی ایمان سے محروم رہے اور دوسروں کے پاس یہ نعمت دیکھنا بھی برداشت نہیں ۔ ابلیس کا سجدے سے انکار، قابیل کا اپنے بھائی کو قتل کرنا، برادران یوسف کا اپنے بھائی پر ظلم اور اہل کتاب کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننے کے باوجود انکار اور دشمنی کا باعث یہی حسد تھا۔ 3۔ فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا....: یعنی جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے ساتھ لڑائی کا حکم نہ آ جائے اس وقت تک عفو و درگزر سے کام لو، ان کے اوچھے حملوں اور حسد و بغض کی وجہ سے بے قابو نہ ہونا۔ پھر لڑائی کا حکم آنے پر بنو نضیر اور بنو قینقاع کو جلا وطن ہونا پڑا اور بنو قریظہ قتل ہوئے۔