وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ مِن رَّبِّي ۚ هَٰذَا بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور جب آپ ان کی مانگ کے مطابق کوئی نشانی (132) نہیں لاتے ہیں تو وہ (بطور استہزاء) کہتے ہیں کہ اسے تم نے خود کیوں نہیں گھڑ لیا، آپ کہئے کہ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب کی طرف سے بطور وحی مجھ پر نازل ہوتا ہے، یہ قرآن آپ کے رب کی جانب سے بصیرتوں کا خزانہ ہے، اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے
1۔ وَ اِذَا لَمْ تَاْتِهِمْ بِاٰيَةٍ....: اس آیت میں شیاطین کے بھائیوں کی گمراہی اور بے جا ضد کی ایک مثال بیان فرمائی ہے، یعنی وہ پیغمبر سے ازراہ عناد کہتے ہیں کہ تم اپنے پاس ہی سے کوئی آیت (معجزہ) کیوں نہیں لے آتے۔ فرمایا میں تو صرف وحی الٰہی کا تابع ہوں اور اپنی طرف سے کوئی معجزہ پیش نہیں کر سکتا۔ دیکھیے سورۂ یونس(۱۵ تا ۱۷)۔ 2۔ هٰذَا بَصَآىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ....: اس میں اشارہ ہے کہ قرآن کریم ہی بڑا کافی معجزہ ہے، اس کے ہوتے ہوئے مزید معجزوں کی طلب محض نہ ماننے کا بہانہ ہے۔ دیکھیے سورۂ عنکبوت (۵۰، ۵۱) پھر یہاں قرآن کے تین بڑے اوصاف بیان فرمائے ہیں، جو صرف اس معجزے کی خصوصیت ہیں۔