إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ
بے شک اللہ سے ڈرنے والوں کو جب شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ لاحق ہوتا ہے، تو وہ اللہ کو یاد (130) کرنے لگتے ہیں، پھر وہ اچانک بصیرت والے بن جاتے ہیں
اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓىِٕفٌ....: ’’طٰٓىِٕفٌ ‘‘ ’’طَافَ يَطُوْفُ‘‘ کا معنی ہے گھومنا چکر لگانا، تو ’’ طٰٓىِٕفٌ ‘‘ وہ خیال جو ذہن میں آتا ہے، رات خواب میں آنے والا کسی کا خیال بھی ’’طَيْفٌ‘‘ یا ’’طٰٓىِٕفٌ ‘‘ کہلاتا ہے۔ قاموس میں اس کا ترجمہ غضب بھی کیا گیا ہے۔ ’’مَسَّ يَمَسُّ (ع) ‘‘ کا معنی ہے چھونا، یعنی شیطان کی طرف سے آنے والے خیال یا غصے کے چھونے کے ساتھ ہی انھیں اللہ تعالیٰ کا جلال، آخرت کی جوابدہی اور شیطان کی دشمنی یاد آ جاتی ہے، جس سے فوراً ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں، ان میں بصیرت اور استقامت پیدا ہو جاتی ہے، وہ اسی وقت اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہوئے اس وسوسے، خیال یا غصے کا پیچھا چھوڑ دیتے ہیں اور اس پر عمل سے باز رہتے ہیں۔