سورة الاعراف - آیت 171

وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ وَظَنُّوا أَنَّهُ وَاقِعٌ بِهِمْ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب ہم نے پہاڑ (105) کو ان کے اوپر اس طرح اٹھایا کہ جیسے وہ کوئی سائبان ہو، اور انہیں گمان ہوا کہ وہ ان پر گرنے ہی والا ہے (تو ہم نے کہا) کہ ہم نے تمہیں جو کتاب دی ہے اسے پوری قوت کے ساتھ پکڑ لو، اور اس میں جو کچھ ہے اسے یاد رکھو، تاکہ تم تقوی کی راہ اختیار کرو

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ....: ’’نَتَقَ يَنْتِقُ ‘‘ کا معنی ’’کسی چیز کو زور سے کھینچ کر ہلانا‘‘ ہے۔ (راغب) یہاں پہاڑ کا ذکر ہے اور سورۂ بقرہ میں طور کا ذکر ہے، یا تو وہ طور نامی پہاڑ تھا اور یا لفظ ’’طور‘‘ عام پہاڑ کے معنی میں بھی آتا ہے، دونوں جگہ دونوں مراد ہو سکتے ہیں۔ بنی اسرائیل کی سابقہ سرکشیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان سے تورات کے احکام پر عمل کا پختہ عہد لینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے زلزلے کے ساتھ پہاڑ کو اکھاڑ کر ان کے سروں پر سایہ فگن کر دیا اور انھیں یقین ہو گیا کہ یہ ہم پر گرنے ہی والا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ اس ہیبت ناک ماحول میں وہ اللہ سے ڈرتے ہوئے عمل کا سچا عہد کریں۔ قوت کے ساتھ پکڑنے کا مطلب اس پر عمل کرنا ہے۔