وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا ۖ قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
اور جب ان کی ایک جماعت (99) نے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں وعظ و نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ یا تو ہلاک کرنے والا ہے یا سخت عذاب دینے والا ہے؟ تو انہوں نے کہا تاکہ ہم اپنے رب کے حضور معذور سمجھے جائیں، اور ممکن ہے کہ وہ لوگ اللہ سے ڈرنے لگیں
1۔ وَ اِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ....: یعنی اس بستی کے نیک لوگوں میں سے ایک گروہ نے ان لوگوں سے کہا جو اس حیلہ سازی سے شکار کرنے والوں کو منع کرتے تھے۔ جمہور مفسرین کا خیال ہے کہ اس بستی کے لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہو گئے تھے، ایک وہ ظالم جو اس حیلہ سازی سے ہفتہ کے دن مچھلیوں کا شکار کرتے تھے۔ دوسرا گروہ وہ جو ان کو ایسا کرنے سے منع کرتا تھا اور تیسرا گروہ وہ جو خود اگرچہ نیک تھا لیکن دوسروں کو برائی سے منع نہیں کرتا تھا، پس یہاں ’’اُمَّةٌ ‘‘ سے مراد یہی تیسرا گروہ ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ گروہ جو برائی سے منع کرنے والوں سے کہتا تھا کہ تم ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو، یہ بھی نیک لوگ تھے اور اپنی طرف سے پورا زور لگا چکے تھے کہ انھیں اس گناہ سے منع کریں مگر ان کی ہٹ دھرمی کے بعد ان سے مایوس ہو کر خاموش ہو گئے تھے اور اب ان پر عذاب آنے کے منتظر تھے۔ 2۔ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَا اللّٰهُ مُهْلِكُهُمْ....: یعنی کیوں ان کے سمجھانے میں وقت ضائع کرتے ہو، جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دنیا میں ہلاکت اور آخرت میں عذاب لکھ دیا ہے تو تم انھیں کیسے بچا لو گے؟! مطلب یہ کہ خود نیکی پر قائم رہو اور انھیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔ 3۔ قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ....: برائی سے منع کرنے والوں نے اپنے عمل کی دو وجہیں بیان کیں، ایک تو یہ کہ کہیں اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس جرم میں نہ پکڑ لے کہ تم نے انھیں نصیحت کرنا کیوں چھوڑ دیا تھا، تاکہ ہمارا عذر بن جائے کہ ہم تو منع کرتے رہے تھے اور دوسری یہ کہ ہم کسی صورت ناامید ہونے والے نہیں، شاید یہ سب یا ان میں سے کچھ لوگ اس عمل بد سے بچ جائیں، کیونکہ داعی کو ہمیشہ پر امید رہنا چاہیے۔