الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
ان کے لیے جو ہمارے رسول نبی امی (90) کی اتباع کرتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔ اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور خبیث اور گندی چیزوں کو حرام کرتے ہیں، اور ان بارہائے گراں اور بندشوں کو ان سے ہٹاتے ہیں جن میں وہ پہلے سے جکڑے ہوئے تھے، پس جو لوگ ان پر ایمان (91) لائے ہیں، اور جنہوں نے ان کے مقام کو پہچانا ہے، اور ان کی مدد کی ہے، اور اس نور کی پیروی کی ہے جو ان پر نازل ہوا، وہی فلاح پانے والے ہیں
1۔ اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ....: یعنی اس زمانے میں میری رحمت کے خاص طور پر مستحق وہ لوگ ہیں…۔ (قرطبی) 2۔ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نو صفات مذکور ہیں اور الْاُمِّيَّ (جو پڑھنا لکھنا نہ جانتا ہو) کے لفظ سے یہاں اس طرف اشارہ ہے کہ ان پڑھ ہونے کے باوجود آپ میں جو کمال علم پایا جاتا ہے وہ آپ کا بہت بڑا معجزہ ہے، جو ’’علوم نبوت‘‘ قرآن مجید اور احادیث کی شکل میں موجود ہیں انھیں پڑھ کر عرب جیسی ان پڑھ قوم دنیا کی انتہائی تعلیم یافتہ اور مہذب ترین قوموں کی راہنما بن گئی۔ 3۔ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا....: اگرچہ یہود و نصاریٰ نے تورات و انجیل میں لفظی اور معنوی تحریف میں کم ہی کسر چھوڑی ہے، خصوصاً مختلف زبانوں کے تراجم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے بجائے اس کا ترجمہ کر دیا ہے، حالانکہ نام کا ترجمہ نہیں کیا جاتا، پھر ترجمہ بھی اپنی مرضی کے مطابق کیا ہے اور اصل زبان میں جو کتابیں تھیں وہ ملتی ہی نہیں، تاہم آج بھی تورات و انجیل میں وہ مقامات موجود ہیں جن میں بنی اسرائیل کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیے استثناء، باب ۱۸، فقرہ ۱۵ تا ۱۹۔ باب ۳۳، فقرہ ۲۔ متی، باب ۳، فقرہ ۱ تا ۱۲۔ یوحنا، باب ۱، فقرہ ۱۹ تا ۲۲۔ باب ۱۴، فقرہ ۱۵ تا ۱۷ اور ۲۵ تا ۲۷۔ باب ۱۶، فقرہ ۱۲ تا ۱۵۔ علاوہ ازیں دیکھیے تورات کی پانچویں کتاب استثناء، باب ۱۷، فقرہ ۱۴۔ یوحنا، باب ۱۶، فقرہ ۱۲ تا ۱۴۔ 4۔ وَ يُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ....: یعنی جو طیب چیزیں ان پر ان کے گناہوں کی وجہ سے حرام کر دی گئی تھیں، یا انھوں نے خود انھیں اپنے اوپر حرام کر لیا تھا (جیسے اونٹ کا گوشت اور چربی وغیرہ) وہ انھیں حلال قرار دیتا ہے اور جن ناپاک چیزوں کو انھوں نے حلال قرار دے رکھا تھا (جیسے سور کا گوشت اور شراب وغیرہ) وہ انھیں حرام قرار دیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ جو چیز شریعت نے حلال قرار دی ہے وہ طیب ہے اور جو حرام قرار دی ہے وہ خبیث ہے۔ 5۔ وَ يَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ....: ’’اِصْرٌ‘‘ (بوجھ)سےمراد وہ سخت احکام ہیں جو پچھلی شریعت میں تھے، مثلاً نماز صرف عبادت خانوں ہی میں ادا کرنا، شرک کی حد قتل ہی ہونا وغیرہ اور ’’الْاَغْلٰلَ ‘‘ (طوقوں) سے مراد وہ خود ساختہ پابندیاں ہیں جو ان کے علماء نے ان پر لگا رکھی تھیں، یا ان کے عوام نے جو رسوم خود اپنے آپ پر لازم قرار دے رکھی تھیں، مثلاً حائضہ کو کھانے پینے میں الگ کر دینا، اس کی رہائش بھی الگ کر دینا، جیسا کہ مسلمانوں میں نصرانیوں اور ہندوؤں کی دیکھا دیکھی موت کی رسوم تیجا، ساتواں، چالیسواں، پیدائش اور نکاح کی رسوم، مثلاً بچے کی پیدائش پر دروازے پر سِرَس یعنی شَرِینہ کے پتے لٹکانا، زچہ کی چارپائی پر لوہا رکھنا، کھسرے نچانا، ان پر خرچ کرنا، بے اولاد خاتون کو منحوس سمجھ کر گھر میں نہ آنے دینا، نکاح میں سہرا، گانا، مہندی، منگنی کی خود ساختہ رسمیں، اسی طرح نیوندرہ، سلامی اور جہیز وغیرہ جن سے لوگوں کی زندگی دشوار ہو چکی ہے اور جو نہ اللہ کی کتاب میں ہیں نہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں۔ اسی طرح اللہ بہتر جانتا ہے کہ پیغمبروں کی گستاخی کرنے والی حتیٰ کہ انھیں قتل تک کر دینے والی اس امت کے احبار و رہبان نے کتنی حلال چیزوں کو حرام اور حرام کو حلال قرار دیا ہو گا اور ختم اور میت بخشوانے وغیرہ کے نام پر لوگوں کا مال کس کس طرح کھایا ہو گا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تمام بوجھ اور طوق اتار کر اور وہ تمام پابندیاں توڑ کر اصل اسلام پیش فرمایا جو نہایت سادہ اور آسان ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَحَبُّ الدِّيْنِ إِلَی اللّٰهِ الْحَنِيْفِيَّةُ السَّمْحَةُ ))’’اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب آسان حنیفی دین ہے۔‘‘ [ بخاری، الإیمان، باب الدین یسر، قبل ح : ۳۹، تعلیقًا ] اور فرمایا : (( اِنَّ الدِّيْنَ يُسْرٌ )) ’’دین آسان ہے۔‘‘ [ بخاری، الإیمان، باب الدین یسر : ۳۹ ] ایک دوسری حدیث ہے : (( لاَ ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ )) [ السلسلۃ الصحیحۃ : ۲۵۰ ] یعنی نہ ابتداءً نقصان پہنچانا جائز ہے نہ بدلے میں نقصان پہنچانا۔ نیز آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو ہمیشہ تلقین فرماتے : ((يَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا )) ’’آسانی کرو، تنگی مت کرو۔‘‘ [ بخاری، الأدب، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم : یسروا ولا تعسروا : ۶۱۲۵ ] افسوس! مسلمانوں نے بھی اہل کتاب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شریعت کے فرائض کی پابندی کرنا اور منع کر دہ چیزوں سے اجتناب چھوڑ دیا اور اپنی اور اپنے مولویوں اور جاہل عوام کی خود ساختہ رسوم و رواج کے بوجھ اور طوق اپنے اوپر ڈال کر اپنی زندگی کو مشکل میں ڈال دیا۔ وہ حج پر نہیں جاتے مگر قبروں پر عرسوں میں ہزاروں لٹا دیتے ہیں، نماز نہیں پڑھتے مگر مرشدوں کے وظائف پر گھنٹے لگا دیتے ہیں۔ زکوٰۃ و عشر نہیں دیتے مگر میت کے موقع پر دیگوں، ختموں اور مولوی صاحبان پر لاکھوں اڑا دیتے ہیں، نکاح کی رسوم پوری کرنے، جہیز بنانے کے لیے ساری عمر کے لیے مقروض ہو جاتے ہیں مگر لڑکیوں کو ورثہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اب اس کی شکایت اللہ کے سوا کس کے سامنے کی جائے۔ 6۔ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ....: وہ نور جو آپ کے ساتھ اتارا گیا وحی الٰہی ہے جو قرآن و سنت کی صورت میں قیامت تک محفوظ ہے۔ ’’اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ‘‘ سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد آپ کی آمد کا علم ہونے کے باوجود اگر کوئی شخص ایمان نہیں لاتا، خواہ یہودی ہو یا نصرانی یا کوئی اور، وہ ہر گز فلاح نہیں پا سکتا۔ دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت (۶۲) کا حاشیہ(۲)۔