سورة الاعراف - آیت 146

سَأَصْرِفُ عَنْ آيَاتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَإِن يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوا بِهَا وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

میں جلد ہی اپنی آیتوں میں غو و فکر کرنے سے ان لوگوں کے دلوں کو پھیر دوں گا جو زمین میں ناحق تکبر (78) کرتے ہیں، اور اگر وہ لوگ ہر ایک نشانی کو دیکھ لیں گے پھر بھی ان پر ایمان نہیں لائیں گے، اور اگر وہ ہدایت کا راستہ دیکھ لیں گے تب بھی اسے اختیار نہیں کریں گے، اور اگر گمراہی کی راہ دیکھ لیں گے تو اس پر چل پڑیں گے، یہ اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، اور ان کی طرف سے یکسر غافل رہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

سَاَصْرِفُ عَنْ اٰيٰتِيَ....: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرہ برابر کبر ہو گا۔‘‘ ایک آدمی نے کہا : ’’آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، اس کا جوتا اچھا ہو (کیا یہ بھی کبر ہے)؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بے شک اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے، تکبر تو بڑا بنتے ہوئے حق کے انکار اور لوگوں کو حقیر اور بے وقعت جاننے کا نام ہے۔‘‘ [ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ : ۹۱، عن ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ ] اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی آیات سن کر جو لوگ اپنی بڑائی اور برتری کے زعم میں حق قبول نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ بھی انھیں اپنی آیات قبول کرنے سے دفع دور کر دیتا ہے۔ یہاں فرمایا : ’’میں اپنی آیات سے ان لوگوں کو پھیر دوں گا…‘‘ یعنی انھیں یہ سزا دوں گا کہ وہ میری عظمت، شریعت اور احکام کو سمجھ نہ سکیں گے اور پھر جاہل رہنے کی وجہ سے دنیا و آخرت دونوں میں ذلیل ہوں گے۔ (نیز دیکھیے انعام : ۱۱۰) اس لیے بعض سلف کا قول ہے : ’’متکبر شخص علم حاصل نہیں کر سکتا اور جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے ایک ساعت کی ذلت گوارا نہیں کر سکتا وہ جاہل رہ کر ہمیشہ کی ذلت مول لیتا ہے۔‘‘ (ابن کثیر) ’’ بِغَيْرِ الْحَقِّ ‘‘ کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں حق بنتا ہو وہاں بڑا بن کے دکھانا درست ہے، مثلاً کفار کے مقابلے میں میدان جنگ کے اندر اللہ تعالیٰ کو متکبرانہ انداز کی چال بھی محبوب ہے جو عام حالات میں اسے سخت ناپسند ہے۔ وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِيْنَ: یعنی یہ سب ان کے اپنے کیے کی سزا ہو گی، جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : ﴿ فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ﴾ [ الصف : ۵ ] ’’جب وہ ٹیڑھے ہو گئے تو اللہ نے بھی ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔‘‘ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’الواح (تختیاں) دے کر یہ بھی فرمایا کہ قوم کو تقید (پابند) کرو کہ عمل کریں اور یہ بھی فرما دیا کہ جو بے انصاف ہیں اور حق پرست نہیں ان کے دل میں پھیر دوں گا، اس پر عمل نہیں کریں گے، یعنی ان حکموں کی توفیق نہ ہو گی اور جو اپنی عقل سے کریں گے وہ قبول نہ ہو گا۔‘‘ (موضح)