سورة الاعراف - آیت 131

فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَٰذِهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ ۗ أَلَا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِندَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس جب انہیں کوئی اچھی چیز ملتی تو کہتے کہ ہم تو ہیں ہی اس کے حقدار، اور اگر ان کا کوئی نقصان ہوجاتا تو مومسی اور ان کے ساتھیوں سے بد شگونی لیتے حالانکہ ان کی شومئی قسمت تو اللہ کی جانب سے ہے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ کچھ نہیں جانتے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ....: جیسا کہ آیت (۹۴، ۹۵) میں ذکر فرمایا تھا کہ ہر قوم کی آزمائش تنگی اور تکلیف کے علاوہ خوش حالی اور آسودگی کے ساتھ بھی ہوئی، اس کے مطابق فرعون کی قوم پر سختی اور مصیبت کے بعد راحت اور خوش حالی آتی تو بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھ کر شکر گزاری کریں، وہ ’’لَنَا هٰذِهٖ ‘‘ کہتے، یعنی یہ ہمارے حسن انتظام کا نتیجہ اور ہمارا حق ہے۔ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰى....: ’’يَطَّيَّرُوْا ‘‘ ’’تَطَيَّرَ يَتَطَيَّرُ‘‘ باب تفعل سے ہے جس کا مادہ ’’ طَيْرٌ ‘‘ (پرندہ) ہے۔ اصل میں ’’يَتَطَيَّرُوْا ‘‘ تھا، تاء کا طاء میں ادغام کر دیا ہے۔ مشرکین کا طریقہ تھا کہ فال لینے کے لیے کسی پرندے کو اڑاتے، اگر وہ اڑ کر دائیں طرف جاتا تو اسے نیک فال اور باعث برکت سمجھتے اور اگر بائیں طرف جاتا تو بدفال اور باعث نحوست سمجھتے، یہاں تمام مفسرین کے نزدیک ’’تَطَيَّرَ‘‘ کا معنی فالِ بد اور نحوست ہے، یعنی اپنی مصیبتوں کا باعث موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی نحوست کو قرار دیتے۔ اَلَا اِنَّمَا طٰٓىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ....: یعنی اس نحوست کا اصل سبب تو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور خیر و شر جو کچھ ان کو پہنچ رہا ہے تمام کا تمام اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے ہے جو ان کے اعمال کے سبب ان کے حق میں لکھا جا چکا ہے، یہ سراسر جہالت ہے کہ بھلائی کو اپنی خوبی اور برائی کو کسی دوسرے کی نحوست قرار دیاجائے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یعنی شومی قسمت بد ہے، سو اللہ کی تقدیر سے ہے، برائی اور بھلائی کا اثر آخرت میں ہو گا، اس کا جواب یہاں یہ نہیں فرمایا کہ شومی ان کے کفر سے تھی، کیونکہ کافر بھی دنیا میں عیش کرتے ہیں۔ اصل حقیقت (جو) تھی سو فرمائی کہ دنیا کے احوال موقوف بہ تقدیر ہیں۔‘‘ (موضح) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے‘‘ تین دفعہ فرمایا ’’اور ہم میں سے ہر ایک کو (کوئی نہ کوئی وہم ہو جاتا ہے) مگر اللہ تعالیٰ اسے توکل کی برکت سے دور کر دیتا ہے۔‘‘ [أبوداؤد، الطب، باب فی الطیرۃ : ۳۹۱۰۔ ترمذی : ۱۶۱۴ ]