وَلَقَدْ أَخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِينَ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ
اور ہم نے فرعونیوں کو قحط سالی اور پھلوں کی کمی کے عذاب میں مبتلا (68) کیا تاکہ شاید نصیحت حاصل کریں
وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ....: اوپر کی آیت میں جب موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے یہ وعدہ فرمایا کہ وہ وقت قریب ہے کہ تمھارا مالک تمھارے دشمن کو تباہ کر دے، تو اب یہاں سے ان تکلیفوں اور مصیبتوں کا بیان شروع کیا جن میں وقتاً فوقتاً آل فرعون کو مبتلا کیا گیا، حتیٰ کہ آخر کار تباہ کر دیے گئے، تاکہ ان مشرکین کو کفر پر کچھ تنبیہ ہو اور انھیں خبردار کیا جائے کہ پیغمبروں کے جھٹلانے کا انجام تباہی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ آخر میں فرمایا کہ یہ تکالیف اور مصیبتیں ان پر اس لیے بھیجیں کہ نصیحت حاصل کریں اور اپنی سرکشی سے باز آ جائیں، کیونکہ مصیبت کے وقت دل نرم اور اللہ کی طرف رجوع ہوتا ہے۔