وَمَا تَنقِمُ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِآيَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاءَتْنَا ۚ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ
اور ہم سے تمہاری دشمنی کا سبب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ جب ہمارے پاس ہمارے رب کی نشانیاں آگئیں تو ہم ان پر ایمان (64) لے آئے، اے ہمارے رب ! تو ہمیں صبر عطا فرما، اور دنیا سے ہمیں مسلمان اٹھا
وَ مَا تَنْقِمُ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا....: ’’ نَقَِمَ مِنْهُ (ض، ع) ‘‘ اور ’’اِنْتَقَمَ‘‘ عَاقَبَهُ یعنی ’’نَقَمَ مِنْهُ‘‘ اور ’’اِنْتَقَمَ مِنْهُ‘‘ کا معنی بدلہ لینا، سزا دینا ہے اور’’ نَقَّمَ الْأَمْرَ‘‘ کا معنی ’’ كَرِهَهُ‘‘ یعنی کسی شے سے نفرت اور کراہت ہے۔ (قاموس) مطلب یہ ہے کہ اگر ہمارا کوئی گناہ ہے تو صرف یہ کہ ہم اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی فن کو جتنا اس فن والا جانتا ہے کوئی دوسرا نہیں جان سکتا، چنانچہ ان جادوگروں نے جب موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کو دیکھا تو فوراً سمجھ گئے کہ یہ ہرگز جادو نہیں ہو سکتا، بلکہ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزہ ہے، اس لیے وہ اس پر فوراً ایمان لے آئے اور ان کے ایمان میں اس قدر پختگی تھی کہ انھوں نے جان تک کی پروا نہیں کی، بلکہ اللہ تعالیٰ سے صبر و استقامت اور ایمان و اسلام پر موت کی دعا کی۔ مشہور قول کے مطابق وہ قتل کر دیے گئے، چنانچہ طبری اور دوسرے مفسرین نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ذکر کیا ہے کہ شروع دن میں وہ جادوگر تھے اور پھر دن کے آخری حصے میں شہداء میں داخل ہو گئے۔ دکتور حکمت بن بشیر نے تفسیر ابن کثیر کی تخریج میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول کے متعلق لکھا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول ابن ابی حاتم نے ضعیف سند کے ساتھ سدی عن ابن عباس کے طریق سے روایت کیا ہے جب کہ سدی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نہیں سنا (لہٰذا روایت منقطع ہے صحیح نہیں)۔ قرآن مجید نے اس مقام پر یہ ذکر نہیں فرمایا کہ ان کا انجام کیا ہوا، نہ ہی سورۂ شعراء اور سورۂ طٰہٰ میں یا کسی اور جگہ یہ ذکر فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کا مقصد عبرت کے لیے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اللہ کی مدد، فرعون کی شکست، جادوگروں کے ایمان لانے، فرعون کی دھمکیوں کے باوجود اس پر قائم رہنے کے عزم اور صبر اور ایمان پر خاتمے کی دعا کا بیان ہے، محض قصہ بیان کرنا نہیں، جیسا کہ سورۂ نازعات میں فرمایا : ﴿ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَنْ يَّخْشٰى ﴾ [ النازعات : ۲۶ ] ’’بے شک اس میں اس شخص کے لیے یقیناً بڑی عبرت ہے جو ڈرتا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا۔ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ فرعون اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکا، جیسا کہ اس نے اپنے سرداروں سے کہا تھا : ’’مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں۔‘‘ [ المؤمن : ۲۶ ] اور آل فرعون میں سے وہ مومن جس نے بھرے دربار میں موسیٰ علیہ السلام کے قتل کی مخالفت کی اس کے خلاف بھی فرعون نے بدترین سازش کی، مگر وہ موسیٰ علیہ السلام کو قتل نہ کر سکا اور اس مومن کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس کی سازشوں سے بچا لیا۔ دیکھیے سورۂ مومن (۴۵) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو یہ تسلی دے کر بھیجا تھا : ﴿ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِيْكَ وَ نَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا يَصِلُوْنَ اِلَيْكُمَا بِاٰيٰتِنَاۤ اَنْتُمَا وَ مَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغٰلِبُوْنَ ﴾ [ القصص : ۳۵ ]’’ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو ضرور مضبوط کریں گے اور تم دونوں کے لیے غلبہ رکھیں گے، سو وہ تم تک نہیں پہنچیں گے، ہماری نشانیوں کے ساتھ تم دونوں اور جنھوں نے تمھاری پیروی کی، غالب آنے والے ہو۔‘‘ زیر تفسیر مقام پر بھی اگر وہ اپنی اس دھمکی پر عمل کر چکا ہوتا تو اس کی قوم کے سرداروں کو اسے نئے سرے سے بھڑکانے کی کوئی ضرورت نہ تھی، جیسا کہ اگلی آیت میں آ رہا ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)