سورة الاعراف - آیت 96

وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اگر بستیوں والے ایمان (53) لے آتے اور تقوی کی راہ اختیار کرتے، تو ہم آسمان و زمین کی برکتیں ان پر کھل دیتے، لیکن انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا، تو ہم نے ان کے کیے کی وجہ سے انہیں پکڑ لیا

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا....: اگر واقعی بستیوں والے ایمان لاتے اور اللہ کی حدود کی پابندی کرتے تو اس ایمان اور تقویٰ کا نتیجہ ان انعامات کی شکل میں پاتے کہ…! اور ایمان اور تقویٰ اختیار نہ کرنے کا نتیجہ عذاب الٰہی کی صورت میں نکلتا ہے کہ وہ برکات سے محروم ہو کر عذاب سے دو چار ہوتے ہیں۔ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ: ’’بَرَكٰتٍ ‘‘ ’’بَرَكَةٌ ‘‘ کی جمع ہے، کسی چیز میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر ہونا۔ اصل میں ’’بِرْكَةٌ ‘‘ حوض کو کہتے ہیں، جس طرح حوض میں پانی جمع ہوتا ہے، اسی طرح کسی چیز میں بہت سی خیر موجود ہونا ’’بَرَكَةٌ ‘‘ کہلاتا ہے۔ راغب نے فرمایا : ’’چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر اس طرح آتی ہے کہ آتے ہوئے نہ اس کا احساس ہوتا ہے اور نہ اس کا کوئی شمار ہوتا ہے، اس لیے اگر کسی شخص یا چیز میں محسوس نہ ہونے والی بہتری کا مشاہدہ ہو رہا ہوتوکہتے ہیں کہ وہ مبارک ہے اور اس میں برکت ہے۔‘‘ (طنطاوی) ’’برکتیں کھول دیتے‘‘ یہ استعارہ ہے کہ جس طرح دروازہ کھل جاتا ہے اس طرح ان پر برکات کا نزول ہوتا، یعنی آسمان سے بارش اور رحمتوں کی صورت میں اور زمین سے پانی زرعی اجناس (غلے اور پھل) اور زمین سے نکلنے والی بے شمار نعمتوں، مثلاً پٹرول، گیس، سونا، چاندی اور جواہرات وغیرہ کی صورت میں۔