وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ هَٰذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً ۖ فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ ۖ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح (48) کو بھیجا، اس نے کہا، اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس کھلی دلیل آچکی ہے، یہ اللہ کی اونٹنی ہے جسے اللہ نے تمہارے لیے بطور نشانی بھیجی ہے، تم لوگ اسے چھوڑ دو اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے، اور کوئی تکلیف نہ پہنچا، ورنہ تمہیں دردناک عذاب پکڑ لے گا
1۔ وَ اِلٰى ثَمُوْدَ: ثمود کا شمار بھی عرب کی قدیم ترین قوموں میں ہوتا ہے، عاد کے بعد سب سے مشہور قوم یہی ہے، اسی بنا پر بعض نے اسے ’’عادِ ثانیہ‘‘ بھی لکھ دیا ہے۔ ان کا مسکن شمال مغربی عرب کا وہ علاقہ تھا جو آج بھی ’’الحجر‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ دیکھیے سورۂ حجر (۸۰) (ابن کثیر) بعض علماء کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں پانی کی کمی کی وجہ سے ان کا نام ثمود پڑا، کیونکہ ’’ثمد‘‘ قلیل پانی کو کہتے ہیں۔ مدینہ اور تبوک کے درمیان شام کو جانے والی شاہراہ پر ایک شہر مدائن صالح کے نام سے مشہور ہے، یہی قوم ثمود کا صدر مقام تھا۔ سورۂ شعراء (۱۴۶ تا ۱۴۹) میں اﷲ تعالیٰ نے ان کی تعمیری اور زرعی مہارت کا ذکر فرمایا ہے۔ وہاں اب بھی اچھی خاصی تعداد میں وہ عمارتیں پائی جاتی ہیں جو ثمود نے پہاڑوں کو تراش کر بنائی تھیں اور ان کے ارد گرد بڑا وسیع میدان ہے جہاں وہ کھیتی باڑی کرتے تھے۔ عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب تبوک کے پاس رکے تو آپ صحابہ کے ساتھ حجر میں ثمود کے گھروں کے پاس ٹھہرے، لوگوں نے ان کنوؤں سے پانی پیا جہاں سے ثمود پیتے تھے، اسی پانی کے ساتھ آٹا بھی گوندھا اور ہانڈیاں بھی پکا لیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو انھوں نے ہانڈیاں گرا دیں اور آٹا اونٹوں کو کھلا دیا، پھر آپ وہاں سے روانہ ہوئے اور اس کنویں کے پاس پڑاؤ ڈالا جس سے ( صالح علیہ السلام کی ) اونٹنی پانی پیتی تھی۔ آپ نے ان لوگوں کے گھروں میں جانے سے منع فرما دیا جن پر عذاب نازل ہوا تھا اور فرمایا : ’’ان لوگوں کے گھروں میں داخل نہ ہو جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا مگر یہ کہ تم رونے والے ہو ، میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم پر بھی وہ عذاب نہ آ جائے جو ان پر نازل ہوا تھا۔ ‘‘ [أحمد :2؍117، ح : ۵۹۸۹۔ مسلم : ۲۹۸۰ ] وہ کنواں اب بھی موجود ہے، مگر خشک ہو چکا ہے۔ ( ابن کثیر) جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک لمبی حدیث ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب حجر میں اترے تو خطبہ دیا، فرمایا : ’’لوگو! اپنے نبی سے آیات (معجزات) طلب مت کیا کرو، دیکھو صالح علیہ السلام کی قوم نے اپنے نبی سے سوال کیا کہ ان کے لیے اونٹنی بھیجے تو وہ اس پہاڑی درے سے آتی اور ان کا پانی پیتی جس دن اس کے پینے کی باری ہوتی اور وہ اس کا دودھ اتنا حاصل کرتے جتنا پانی سے سیراب ہوتے تھے۔‘‘ [ مستدرک حاکم :2؍340، ح ۳۳۰۴۔ صححہ الحاکم ووافقہ الذہبی ] بعض سیاحت ناموں میں مذکور ہے کہ جس پہاڑی سے وہ اونٹنی بطور معجزہ بر آمد ہوئی تھی اس میں اب تک شگاف موجود ہے۔ ابن کثیر نے اس چٹان کا نام ’’الکاتبہ‘‘ لکھا ہے۔ (البدایہ) مگر ہزاروں برس گزرنے کے بعد کسی پختہ دلیل کے بغیر کسی شگاف کو اونٹنی بر آمد ہونے کی جگہ قرار دینا اندھیرے میں تیر چلانے سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ 2۔ اَخَاهُمْ صٰلِحًا: حافظ بغوی رحمہ اللہ نے ان کا نسب نامہ یوں بیان کیا ہے، صالح بن عبید بن آسف بن ماشح بن عبید بن حاذر بن ثمود۔ (بغوی) اس سے آگے مزید بیان کیا جاتا ہے، عاثر بن ارم بن سام بن نوح۔ ثمود کے دو بھائی اور تھے جن کے نام پر طسم اور جدیس دو قبیلے مشہور ہیں۔ (ابن کثیر) مگر اس زمانے کے انساب کا درست ہونا یقینی نہیں، کیونکہ اس کا کوئی معتبر ذریعہ ہمارے پاس نہیں۔ بعض نے لکھا ہے کہ جزیرہ نمائے سینا کے مشرقی کنارے پر صالح علیہ السلام کی قبر موجود ہے جو آج بھی زیارت گاہِ خلائق ہے اور اسی جزیرے میں جبل موسیٰ کے قریب صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا نقش قدم معروف ہے، مگر جیسا کہ میں نے آیت(۶۵) میں ملا علی قاری سے نقل کیا ہے کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی نبی کی قبر معلوم نہیں اور نقش قدم بنانے میں تو دیر ہی نہیں لگتی، ہاں کوئی پختہ ذریعۂ علم ہو تو الگ بات ہے اور وہ یہاں موجود نہیں۔ 3۔ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ: سورۂ شعراء (۱۴۸ تا ۱۵۹) میں مذکور ہے کہ صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اﷲ تعالیٰ کی توحید، اپنی رسالت و اطاعت اور فساد فی الارض سے بچنے کی دعوت دی تو انھوں نے آپ کو جادو زدہ اور اپنے جیسا انسان کہہ کر جھٹلا دیا اور انھیں نبی تسلیم کرنے کے لیے کوئی معجزہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ صالح علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ سے دعا کی تو اﷲ تعالیٰ نے ایک اونٹنی بھیج دی جو عجیب معجزہ تھی کہ ایک دن وہ ان کا سارا پانی پیتی اور دوسرے دن ان کی اور ان کے جانوروں کی باری ہوتی۔ قرآن و حدیث میں یہ تفصیل نہیں کہ وہ اونٹنی کیسے نمودار ہوئی، مگر تواریخ و تفاسیر میں ہے کہ پہاڑی چٹان پھٹی اور اس میں سے وہ اونٹنی برآمد ہوئی۔ صالح علیہ السلام نے انھیں آگاہ کیا کہ اگر تم نے اس اونٹنی کو کوئی نقصان پہنچایا تو تمھیں بہت بڑا اور دردناک عذاب پکڑ لے گا، پھر ان کے ۹ بدمعاشوں نے صالح علیہ السلام اور ان کے اہل خانہ کو شب خون مار کر شہید کرنے کا منصوبہ بنایا، جس کی تفصیل سورۂ نمل (۴۸تا۵۳) میں ہے۔ آخر کار انھوں نے اونٹنی کو کاٹ ہی ڈالا، پھر ان پر عذاب آ گیا جس کی تفصیل اس مقام پر اور سورۂ ہود، شعراء، نمل اور شمس وغیرہ میں مذکور ہے اور اپنے اپنے مقام پر آ رہی ہے۔ ’’نَاقَةُ اللّٰهِ ‘‘ اگرچہ تمام اونٹنیاں بلکہ ساری کائنات ہی اﷲ مالک الملک کی ہے، مگر اس اونٹنی کو خاص طور پر ’’ اﷲ کی اونٹنی‘‘ قرار دے کر اس کی عظمت اور معجزانہ شان کی طرف اشارہ فرمایا ہے، جیسے تمام گھر اﷲ کی ملکیت ہونے کے باوجود ’’بيت اﷲ‘‘ اسی کو کہا ہے جو مکہ میں ہے۔ 4۔ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ: یعنی اگر اسے ستاؤ گے یا زخمی کرو گے تو اﷲ تعالیٰ کا عذاب تم پر نازل ہو جائے گا۔