قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
آپ کہئے کہ اللہ کی زینت کو کس نے حرام (22) کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا ہے، اور پاکیزہ روزی کو؟ آپ کہئے کہ یہ چیزیں اہل ایمان کے لیے دنیا میں ہیں، اور قیامت کے دن صرف انہی کو ملیں گی، ہم اپنی آیتیں ان کے لیے جو علم رکھتے ہیں اسی طرح کھول کر بیان کرتے ہیں
(22) اس آیت کریمہ میں ان مشرکین کی تردید ہے جو اپنی خواہش نفس کے مطابق کھانے پینے کی چیزوں کو حلال وحرام بنا تے تھے،، ابن ابی حاتم اور طبرانی وغیرہمانے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ قریش والے ننگے بیت اللہ کا طواف کرتے اور سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے، تو یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمان کو لباس پہننے کا حکم دیا گیا، آیت میں" زینۃ"سے مراد ہر وہ مباح چیز ہے جسے انسان خوبصورتی حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، اور طیبات " سے مراد کھانے اور پینے کی ہر وہ چیز ہے جسے اللہ نے بندوں کے لیے مباح کیا ہے۔ ابن جریر طبری لکھتے ہیں کہ جس نے روئی اور کتان کا لباس چھوڑ کر بال اور اون کا لباس اختیار کرلیا اس نے بہت بڑی غلطی کی اور جس نے گیہوں کی روٹی چھوڑ کر سبزیاں اور دال کھانا شروع کردیا، اور جس نے شہوت کے خوف سے گوشت کھانا چھوڑ دیا اس نے بہت بڑی خطا کی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نعمتیں اور کھا نے پینے کی اچھی چیزیں دراصل مؤمنوں کے لیے ہیں۔ کفار ان کے تابع کی حثیت سے ان میں شریک ہوجاتے ہیں، اور قیامت کے دن تو ساری نعمتیں صرف اہل ایمان کے لیے ہوں گی، کفار ان کے ساتھ شریک نہیں ہوں گے اس لیےکہ اللہ تعالیٰ نے کافروں پر جنت حرام کردی ہے۔